ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جولائی 2006 |
اكستان |
|
حدیث کے جاننے والوں سے جو بات کہنی چاہیے تھی وہ فرمائی۔ قَالَ سَعْد یَاعَلِیُّ اَعْطِنِیْ سَیْفًا یَّعْرِفُ الْکَافِرَ مِنَ الْمُؤْمِنِ اَخَافُ اَنْ اَقْتُلَ مُؤْمِنًا فَاَدْخُلُ النَّارَ۔ ''حضرت سعد نے جواب دیا اے علی آپ مجھے ایسی تلوار دے دیں جو کافر اور مومن کو جان لیا کرے، مجھے یہ ڈر ہے کہ کہیں میں کسی مومن کو قتل کرکے داخل ِجہنم نہ ہوجائوں''۔ اِس کے جواب میں حضرت علی رضی اللہ عنہ نے پھر نص قرآنی پیش کی۔ فَقَالَ لَھُمْ عَلِیّ اَلَسْتُمْ تَعْلَمُوْنَ اَنَّ عُثْمَانَ کَانَ اِمَامًا بَایَعْتُمُوْہُ عَلَی السَّمْعِ وَالطَّاعَةِ فَعَلَامَ خَذَلْتُمُوْہُ اِنْ کَانَ مُحْسِنًا وَکَیْفَ لَمْ تُقَاتِلُوْہُ اِذْ کَانَ مُسِیْئًا۔ فَاِنْ کَانَ عُثْمَانُ اَصَابَ بِمَاصَنَعَ فَقَدْ ظَلَمْتُمْ اِذْ لَمْ تَنْصُرُوْا اِمَامَکُمْ وَاِنْ کَانَ مُسِیْئًا فَقَدْ ظَلَمْتُمْ اِذْ لَمْ تُعِیْنُوْا مِنْ اَمْرٍ بِالْمَعْرُوْفِ وَنَھْیٍ عَنِ الْمُنْکَرِ وَقَدْ ظَلَمْتُمْ اِذْ لَمْ تَقُوْلُوْا بَیْنَنَا وَبَیْنَ عَدُوِّنَا اَمَرَکُمُ اللّٰہُ بِہ فَاِنَّہ قَالَ قَاتِلُوْا الَّتِیْ تَبْغِیْ حَتّٰی تَفِیئَ اِلٰی اَمْرِ اللّٰہِ۔ ( وقعة صفین لنصر بن مزاحم ص ٦٣٦) حضرت علی نے فرمایا کہ آپ لوگوں کو یہ معلوم نہیں کہ حضرت عثمان امام (خلیفہ) تھے۔ آپ نے اُن سے اُن کی بات ماننے اور اُن کی اطاعت کرنے کی بیعت کی تھی تو اگر وہ اچھے تھے تو آپ نے انہیں کیوں بے یار و مددگار چھوڑا۔ اور اگر وہ برے تھے تو اُن سے آپ لوگ کیوں نہیں لڑے۔ اگر حضرت عثمان نے کام ٹھیک کیے تھے تو آپ لوگوں نے ان کی مدد نہ کرکے ظلم کیا ہے اور اگر انہوں نے برے کام کیے تھے تو آپ لوگوں نے ان کے مخالفین کی جو امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کررہے تھے مدد نہ کرکے ظلم کیا ہے۔ اور آپ لوگوں نے ہمارے اور ہمارے دُشمن کے درمیان حائل نہ ہوکر بھی ظلم کیا ہے (ہمارے اور اُن کے درمیان کھڑے ہوجانا لازم تھا ،اگر وہ نہ باز آتے اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس کا حکم دیا ہے، اس کا ارشاد ہے جو باغی ہو اس سے لڑو حتی کہ وہ اللہ کے حکم کی طرف لوٹ آئے''۔ ( باقی صفحہ ٤٦)