ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جولائی 2006 |
اكستان |
|
کے لیے دیکھئے ، اُسد الغابہ ص ١٩٨ ج٤) حتی کہ خود اُن کے اپنے گھر میں ایسا واقعہ پیش آیا کہ اُنہوں نے اِس پر یہ فرمایا : وَجَدْتُّ مِنْ عُبَیْدِ اللّٰہِ رِیْحَ شَرَابٍ وَاَنَا سَائِل عَنْہُ فَاِنْ کَانَ یَسْکُرُ جَلَدْتُّہ۔ (بخاری ص ٨٣٨ ج٢) ''میں نے عبید اللہ (اپنے بیٹے) سے شراب کی بو پائی ہے اور میں اُس کے بارے میں معلومات کررہا ہوں تو اگر وہ نشہ کی حد تک پیتا ہوگا تو میں اُس کے کوڑے لگائوں گا۔'' اور حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ حمص میں تھے۔ وہاں ایک شرابی نے جب بات کی تو پتہ چلا کہ یہ شراب پئے ہوئے ہے۔ تو اُنہوں نے اُس پر شراب کی حد جاری کردی۔ (بخاری شریف ص ٧٤٨ ج٢) حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں ایک صحابی حضرت ولید رضی اللہ عنہ کے نشے کا واقعہ پیش آیا جس پر اہل مدینہ میں بھی بہت بے چینی پائی گئی۔ جلد باز لوگوں نے باتیں بھی بنائیں کیونکہ یہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے ماں شریک بھائی تھے، فتح مکہ کے موقع پر مسلمان ہوئے تھے۔ نشہ کے قصہ کے وقت گورنر کوفہ تھے۔ آخر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے اہل مدینہ نے اِن کے بھانجے کے ذریعہ اپنے اضطراب کا اظہار کیا۔ آپ نے فرمایا : فَسَنَأْخُذُ فِیْہِ بِالْحَقِّ اِنْشَآئَ اللّٰہُ۔(بخاری ص ٥٢٢ و ص ٥٤٧ ج١) ''عنقریب اُن کے بارے میں ہم حق فیصلہ اختیار کریں گے۔'' اِن واقعات کے ذکر کرنے کا منشاء یہ ہے کہ نبیذ کی وجہ سے نشہ اور اُس پر حد کے واقعات جب حضرت عمر جیسے خلیفہ کے پاک اور مضبوط ترین دور میں اُن کے گھر میں اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ خلیفۂ راشد کے پاک دور میں پیش آگئے تو نہ تو یزید خلیفۂ عادل و راشد تھا نہ صحابی نہ وہ حضرت قدامہ رضی اللہ عنہ کے برابر تھا نہ حضرت ولید رضی اللہ عنہ کے۔ وہ تابعی تھا، بڑے خاندان کا فرد تھا اور اُس کے بارے میںبہت سے لوگوں کی رائے اُس کے والد سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کی حیات میں بھی اچھی نہ تھی۔ جب وہ سربراہ ِمملکت بنا تو مطلق العنان ہوتا چلا گیا لہٰذا اُس کے شربِ خمر میں کیا استبعاد ہے۔ حضرت محمد بن حنفیہ حضرت عبد اللہ بن حنظلہ سے چھوٹے ہیں اور صحابی نہیں ہیں۔ ابن حنظلہ رضی اللہ عنہ صحابی ہیں اور یزید کے پاس بعد میں گئے ہیں۔ اِن کی بات کو ہی اہل مدینہ نے ترجیح بھی دی ہے۔