ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جولائی 2006 |
اكستان |
|
حضرت علی رضی اللہ عنہ نے کچھ لوگوں کی دعوت کی۔ کھانے کے بعد انہیں نبیذ پلائی، اُن میں سے ایک شخص کو نشہ ہوگیا تو اُسے حد لگادی وہ کہنے لگا کہ آپ بلاتے بھی ہیں کھلاتے بھی ہیں، پلاتے بھی ہیں اور حد بھی لگاتے ہیں۔ ایک دفعہ حضرت عبد اللہ بن عمر نے دعوت کی، اگلے دن اُن مدعوین میں سے ایک صاحب کہنے لگے کہ نبیذ کی وجہ سے مجھے رستہ صحیح طرح نہیں سمجھ میں آرہا تھا مَاکِدْتُّ اَھْتَدِی الطَّرِیْقَ ۔ ملاحظہ ہو الکوکب الدری ص ١٢ و ص ١٣ ج ٢ مع حواشی۔ اور ایسی بہت سی روایات طحاوی شریف کے آخری حصہ میں ہیں۔ اُنہوں نے کافی روایات لکھی ہیں اور بہت مبسوط بحث فرمائی ہے۔ ( دیکھیںطحاوی باب مایحرم من النبیذ ص ٢٧٠ ج٢) اب یوں سمجھئے کہ چونکہ نبیذ اُن کے لازمی مشروبات میں سے تھی جیسے آج کے دور میں چائے ہے اور یہی ذراسی بے احتیاطی سے نشہ کا باعث بن جاتی تھی۔ اس لیے دورِ صحابۂ کرام میں اور بعد کے دور میں نشہ کے واقعات پیش آتے رہے۔ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے دور سے زیادہ مضبوط دور کس کا ہوسکتا ہے۔ اُن کے زمانہ میں ایسے طرح طرح کے واقعات پیش آتے رہے بلکہ بکثرت ایسے واقعات ہونے لگے تو حضرت عمر نے صحابۂ کرام سے مشورہ کیا پھر اَسی کوڑے سزا مقرر کردی۔ امام شافعی فرماتے ہیں : ثُمَّ تَتَابَعَ النَّاسُ فِی الْخَمْرِ فَاسْتَشَارَ فَضَرَبَ ثَمَانِیْنَ (مختصر المزنی ص ٢٦٦) لیکن اِس کے بعد بھی ایسے واقعات ہوتے رہے، مثلاً بخاری شریف میں باب صوم الصبیان میں ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ایک شخص کو رمضان میں نشہ کی حالت میں دیکھا تو فرمایا : وَیْلَکَ وَصِبْیَانُنَا صِیَام فَضَرَبَہ۔ (بخاری شریف ص ٢٦٣ ج١) ''تیرا ناس ہو! یہاں تو یہ حالت ہے کہ ہمارے بچے (بھی) روزہ سے ہیں پھر اُسے حد لگادی''۔ حاشیہ میں ہے کہ اَسی کوڑے لگائے اور اُسے شام بھیج دیا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے بہنوئی حضرت قدامہ بن مظعون رضی اللہ عنہ جو اہل ِبدر میں سے تھے اُن پر بھی حضرت عمر رضی اللہ عنہما نے شراب کی حد لگائی۔ یہ اُن کے دورِ خلافت کے آخری حصہ کا واقعہ ہے۔( تفصیل