ماہنامہ انوار مدینہ لاہور فروری 2006 |
اكستان |
|
(٢) '' لَافَتٰی اِلَّا مُحَمَّد ''کچھ بھلا نہیں لگتا۔ رسول اللہ ۖ کا مقام اِس سے بہت بلند ہے کہ آپ کے لیے فتی کا لفظ استعمال کیا جائے۔ اس کا مفہوم ایسا ہے جیسے جوان یا جوان پٹھا ،کسی نوجوان کو داد دینے کے لیے کہا جائے۔ میں نے لَا فَتٰی اِلاَّ عَلِیّ لَا سَیْفَ اِلاَّ ذُ والْفَقَارِ کی روایت نہیں دیکھی۔ اگر آپ سے دیوبندی علماء اور اہل ِحدیث نے کہا ہے کہ یہ روایت ہے ،تو ٹھیک ہی کہا ہوگا۔ اسے آپ اسی طرح رہنے دیں، اس میں تصرف نہ کریں۔ (٣) مروان تو صحابی نہیں ہیں۔ حافظ ابن حجر عسقلانی نے تہذیب التہذیب میں لکھا ہے : قَالَ الْبُخَارِیُّ لَمْ یَرَ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ '' امام بخاری نے فرمایا ہے کہ اُنہوں نے رسول اللہ ۖ کو نہیں دیکھا''۔ اسی کتاب میں دو سطروں کے بعد لکھا ہے کہ مروان نے ایک گفتگو میں کہا : لَیْسَ ابْنُ عُمَرَ بِاَخْیَرَ مِنِّیْ وَلٰکِنَّہ اَسَنُّ مِنِّیْ وَکَانَتْ لَہ صُحْبَة ۔ ( تہذیب التہذیب ص ٩٢ ج ١٠) ''حضرت ابن عمر مجھ سے بہتر نہیں ہیں لیکن وہ مجھ سے عمر میں زیادہ بڑے ہیں اور انہیں رسول اللہ ۖ کی صحبت ملی ہے''۔ اسی میں لکھا ہے کہ : وَعَابَ الْاَسْمٰعِیْلِیُّ عَلَی الْبُخَارِیِّ تَخْرِیْجَ حَدِیْثِہ ۔ ''اسمٰعیلی نے امام بخاری پر اِن کی روایت نقل کرنے کو معیوب قرار دیا ہے ''۔ اسی صفحہ پر لکھا ہے : وَعُدَّ مِنْ مُّوْبِقَاتِہ اَنَّہ رَمٰی طَلْحَةَ اَحَدَ الْعَشَرَةِ یَوْمَ الْجَمَلِ وَھُمَا جَمِیْعًا مَعَ عَائِشَةَ فَقَتَلَ ۔ ''اُن کے مہلک اعمال میں یہ بات شمار کی گئی ہے کہ اُنہوں نے حضرت طلحہ کو جو عشرہ مبشرہ میں سے ہیں جمل کے دِن تیر مارا اور وہ دونوں حضرت عائشہ کے ساتھ تھے تو اِن کو شہید کردیا''۔