ماہنامہ انوار مدینہ لاہور فروری 2006 |
اكستان |
|
تو یہ عبد اللہ ابن سلام کی مجلس تھی، عبد اللہ ابن اُبی کی مجلس تھی، یہاں جاکر سلام کیا آپ نے، اُس میں مختلف قسم کے لوگ تھے، مختلف مذہبوں والے تھے اُس کی مجلس میں۔ آپ نے کچھ تبلیغی کلمات ارشاد فرمائے تو پہلے پہل تو اُس نے یہ جملہ کہاکہ جو آپ آئے ہیں سواری پر اِس سے جو غبار اُٹھا ہے مجھے بڑی تکلیف ہوئی ہے اِس سے، دوسرے اِس گدھے کی بدبو مجھے آرہی ہے۔ تو ایک صحابی نے کہا کہ تیرے سے تو اِس گدھے کی بدبو اچھی ہے۔ وہ پھر جھگڑا ہونے لگا، پھر رسول اللہ ۖ وہاں سے تشریف لے آئے اور اُس نے کہا کہ آپ یہاں آکر باتیں نہ کیا کریں بلکہ جو آپ کے پاس جائے اُسے سنایا کیجیے وہ باتیں۔ اسلام کے بارے میں دعوت کو سننے سے بالکل انکار کردیا اور یہ سخت جملے بھی کَسَے لَا تُغَبِّرُوْا عَلَیْنَا یہاں غبار نہ اُڑایا کرو آکر، دوسری بات یہ کہ اٰذَانِیْ نَتْنُ حِمَارٍ آپ کے گدھے کی جو بدبو ہے اُس نے مجھے تکلیف پہنچا رکھی ہے۔ جب ایسی باتیں کیں اُس نے اور جواب دیا گیا تو جھگڑا ہوگیا تو پھر یہ الگ الگ ہوگئے۔ تشریف لے آئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ۔ وہاں راستے میں ملے سعد ابن ِعبادہ جو انصار میں سے ایک بڑے سردار تھے، اُن سے آپ نے فرمایا دیکھو اِس طرح سے ہوا ہے تو انھوں نے کہا کہ جناب کی جو یہاں تشریف آوری ہوئی ہے مدینہ منورہ میں تو اِس سے پہلے ہم یہ سوچ رہے تھے کہ اِس شخص کو سردار بنالیں، اور اِس کے پگڑی باندھنے لگے تھے تاج پہنانے لگے تھے کہ یہ ہمارا سردار ہوگا اَنْ یُّتَوِّجُوْا مدینہ منورہ کی ساری بستی کا۔ لیکن جب جناب تشریف لے آئے تو اب یہ طاقت ایک اور پیدا ہوگئی جو اُسے تسلیم نہیں کررہی تھی تو اِس سے اُس کے گلے میں پھندا لگ گیا، گلے میں اُچھو لگنا شَرِقَ بِذٰ لِکَ یہ کبھی کبھی اپنے ہی تھوک سے پڑجاتا ہے۔ اِس واسطہ اس کی باتوں کا کوئی خیال نہ فرمائیں، اِس کی تو بڑی زیادہ دل شکنی ہوئی ہوئی ہے مگر پھر بھی اس کے بیٹے مسلمان تھے اور پکے مسلمان تھے اور اسے ہدایت نہیں ہوئی اول سے آخر تک نہیں ہوئی تو حضرت جابر صحابی ہیں، صحابی بات کرنی جانتے ہیں، تبلیغ کرنی جانتے ہیں، طریقہ آتا ہے جاکر اُسے سمجھا کر کہتے ہیں مگر وہ کہتا ہے کہ نہیں مجھے اپنے لیے اُن کے استغفار کی ضرورت ہی نہیں ہے بلکہ میری کوئی بھی گمشدہ چیز مجھے مل جائے اِس سے مجھے سکون زیادہ ہوگا بہ نسبت اِس کے کہ تمہارے جو یہ ہیںساتھی یہ استغفار کریں میرے لیے، گویا وہ اپنے کفر پر جما رہا اور جلن اور حسد کی وجہ سے ہر وقت کاٹ کرنایہ اُس کا زندگی بھر سلسلہ رہا، اِسی میں وہ مرگیا۔