ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اکتوبر 2005 |
اكستان |
|
دینی مسائل ( نمازِ تراویح کا بیان ) مسئلہ : رمضان کے مہینے میں تراویح کی نماز بھی مردوں اورعورتو ں دونوں کے لیے سنت ہے ۔ اس کی بھی تاکید آئی ہے، اِس کا چھوڑدینااور نہ پڑھنا گناہ ہے ۔ عشاء کے فرض اورسنتوں کے بعد بیس رکعت تراویح پڑھے ،چاہے دودو رکعت کی نیت باندھے چاہے چار چار رکعت کی ،مگردو دو رکعت پڑھنا افضل ہے، جب بیس رکعت پڑھ چکے تو وتر پڑھے۔ مسئلہ : اگر کوئی شخص عشاء کی نماز کے بعدتراویح پڑھ چکاہو اور پڑھ چکنے کے بعد معلوم ہو کہ عشاء کی نماز میں کوئی ایسی بات ہو گئی تھی جس کی وجہ سے عشاء کی نماز نہیں ہوئی تو اُس کو عشاء کی نماز کے اعادہ کے بعد تراویح کابھی اعادہ کرناچاہیے کیونکہ تراویح عشاء کے تابع ہے۔ مسئلہ : تراویح کا رمضان کے پورے مہینے میں پڑھنا سنت ہے اگرچہ قرآن مجید مہینہ تمام ہونے سے قبل ہی ختم ہو جائے مثلاً پندرہ روز میں پورا قرآن مجید پڑھ دیا جائے تو باقی دنوں میں بھی تراویح کا پڑھنا سنت ِموکدہ ہے۔ مسئلہ : محلہ کی مسجد میں تراویح کی جماعت سنت ِکفایہ ہے۔ لہٰذا اگر کسی محلہ کے سب لوگ اپنی مسجد میں تراویح کی جماعت ترک کردیں تو وہ سب ترک ِسنت کے گناہ گار ہو ں گے اور اگر بعض لوگوں نے مسجد میں جماعت کرلی تو باقی لوگوں کے ذمہ سے جماعت ساقط ہو جائے گی۔پھرباقی لوگوں نے اگر گھر میں اکیلے نماز پڑھی تو ترک ِسنت کے گناہ گار تو نہ ہوں گے البتہ جماعت کی فضیلت سے محروم رہیں گے۔ مسئلہ : اگر کچھ لوگوں نے گھر میں جماعت سے نماز تراویح پڑھ لی تواُن لوگوں نے جماعت کی فضیلت تو پالی لیکن مسجد کی جماعت کی فضیلت نہیں پائی کیونکہ تراویح کا جماعت سے مسجد میں ادا کرنا افضل ہے۔ مسئلہ : ایک مسجد کی مختلف منزلوں یا مختلف حصوں میں اگر مختلف حفاظ تراویح کی علیحدہ علیحدہ جماعت کرائیں تو یہ مکروہ ہے ۔ جب تک تراویح کی باقاعدہ جماعت رائج نہیں ہوئی تھی تو صحابہ رضی اللہ عنہم مختلف ٹکڑیوں میں جماعتیں کرلیتے تھے لیکن جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے دور ِخلافت میں تراویح کی باقاعدہ جماعت