ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اکتوبر 2005 |
اكستان |
|
ہوئے مال پر اپنی اجارہ داری قائم کرکے مفادِعامہ کے خلاف اقدام کرے مثلاً زیادہ مہنگے داموں پر فروخت کرے تاکہ زیادہ کمیشن دلالی اورآڑھت وصول ہو۔ غرض اگر شہری مفادِعامہ کو پیشِ نظر رکھے اورصحیح داموں میں سودا فروخت کرے تو اِس کے دیہات والوں کے لیے دلال یا آڑھتی بننے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ بروکر دلال کی اُجرت : (١) اگر دلال (Broker )بائع ومشتری کے درمیان سودا کرانے کی کوشش کرتا ہے اورمالک خود فروخت کرتا ہے تو جیسا رواج ہو اُس کے مطابق دلال اپنی اُجرت بائع سے یا خریدار سے یادونوں سے وصول کرسکتا ہے۔ ان سعی بینھما وباع المالک بنفسہ یعتبرالعرف فتجب الدلالة علی البائع أو المشتری او علیھما بحسب العرف (ردالمحتار ص٤٦ ج٤) (٢) اگر یہی دلال مالک کی اجازت سے شے کو خود فروخت کرے تو وہ بائع کا وکیل بن جاتا ہے اورصرف بائع سے اُجرت وصول کرسکتا ہے اِس صورت میں رواج کا اعتبار نہ ہوگا۔ الدلال ان باع العین بنفسہ باذن ربھا فاجرتہ علی البائع ولیس لہ اخذ شیء من المشتری لانہ ھوالعاقد حقیقة وظاھرہ انہ لا یعتبر العرف ھنا لانہ لاوجہ لہ ۔ (ردالمحتار ص٤٦ ج٤) (٣) بائع اورمشتری دونوں کو درمیان کے آدمی کا بروکر ہونا معلوم ہو : بروکر کے طورپر کام کی اُجرت کے مستحق بننے کے لیے یہ ضروری ہے کہ بائع اورمشتری دونوں ہی کو اِس کا علم ہے کہ یہ شخص بروکر کے طورپر کام کرتا ہے ، صرف بائع یا صرف مشتری کو علم ہونا کافی نہیں ہے مثلاً : (i) ایک شخص کی گاڑی میں کوئی پرزہ تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ گاڑی والا مکینک (مستری )کو کہتا ہے کہ تم چل کر مجھے دِلوا دو۔ مستری مالک کو ایک دُکان پر لے جاتا ہے اورپرزہ پسند کرواتا ہے۔ سودا دُکاندار اورمالک کے درمیان ہوتا ہے اب مستری یہ چاہے کہ چونکہ وہ گاہک لایا ہے لہٰذا دُکاندار اِس کو دلالی کے طورپر کچھ حصہ دے تو اگرچہ دکاندار اِس پر راضی ہو اور وہ اپنے نفع میں سے مستری کو حصہ دے اورگاہک سے اصل قیمت سے