ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اکتوبر 2005 |
اكستان |
|
آپ کے لیے وہ سودا کرانے پر آپ سے مثلاً پچاس ڈالر کمیشن وصول کرتی ہے ۔ پھر آپ نے جو لاٹ خریدی ہے اگر خریداری کے دن ہی آپ نے وہ آگے فروخت کروا دی تو کمپنی صرف اپنا کمیشن وصول کرے گی اوراگر فروخت میں کچھ دن لگ گئے تو کمپنی کمیشن کے علاوہ مثلاًپانچ ڈالر یومیہ کے حساب سے آپ سے سود وصول کرے گی۔ اس کاروبار میں مندرجہ ذیل خرابیاں ہیں : (i) سود کا معاملہ کرنے کی اورسود کی ادائیگی کی نوبت آتی ہے ۔ (ii) ایک کرنسی سے دوسری کرنسی خریدیں تو کم از کم ایک جانب سے پوری ادائیگی سودے کے وقت ہونی ضروری ہے ۔ باع فلوسا بمثلھا اوبدراھم اوبدنانیر فان نقد احدھما جاز وان تفرقا بلا قبض احدھما لم یجز ۔(دُرمختار) لانہ یکون افتراقا عن دین بدین وھو غیر صحیح (ردالمحتار ص١٩٢ ج٤) (iii) کرنسی میں بیع سلم جائز نہیں ہے۔ حاصل یہ ہے کہ جب (Forex) کے کاروبار کی صورت ہی صحیح نہیں تو اُس کے لیے دلالی کرنا بھی جائز نہیں اوراِس پر جو کمیشن لیا جائے وہ بھی حرام ہے ۔ (٢) سٹاک مارکیٹ میں شیئرز کی دلالی : کسی پبلک کمپنی کی حقیقت یہ ہے کہ پہلے چند سرمایہ دار اورپھر عوام سرمایہ مہیا کرتے ہیں اورمثلاً اِس کے ہر پچاس روپے کو ایک حصہ (Share)کہا جاتا ہے ۔اس طرح سے مشترک مال حاصل ہوتا ہے ،اِس کے بعد بنیادی سرمایہ فراہم کرنے والے کچھ لوگوں کو کمپنی کا ڈائریکٹر مقرر کیا جاتا ہے جو اُجرت پر کمپنی کا کاروبار چلاتے ہیں۔ ڈائرکٹروں کی اُجرت سمیت تمام اخراجات منہا کرکے جو نفع ہوتا ہے اُس کو کل حصص پر تقسیم کردیا جاتا ہے ۔ اگرچہ عرف عام میں اِس کو شرکت کہا جاتا ہے لیکن شرعی نقطہ نگاہ سے یہ معاملہ مشترکہ مال میں اَجارہ کا ہے ۔ کمپنیوں میں عام طور سے دوخرابیاں پائی جاتی ہیں : (i) ڈائرکٹروں کی اُجرتیں مجہول ہوتی ہیں اورمعاملہ کرتے ہوئے یہ علم نہیںہوتاکہ وہ کتنی اُجرت وصول کریں گے۔اِس میں شک نہیں کہ اُن کی بنیادی تنخواہ متعین ہوتی ہے لیکن جو بھتے اورالائونسز