ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اکتوبر 2005 |
اكستان |
|
دَلالی اورآڑھت کے احکام ( حضرت مولانا ڈاکٹر مفتی عبدالواحد صاحب ) بسم اللّٰہ نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم اما بعد ! دلال کا لفظ دو معنی میں بولا جاتا ہے : (١) ایک وہ دلال جو اُجرت پر لیکن اَجیر بنے بغیر بائع اور مُشتری کی ایک دوسرے کی طرف رہنمائی کرتا ہے اورخود سودا نہیں کرتا، اِس کو ا نگریزی میں بروکر (Broker)کہتے ہیں ۔ السمسارھو المتوسط بین البائع والمشتری باجر من غیران یستاجر (ص ٦٤٥ج ٤ ردالمحتار) (٢) دُوسرا وہ دلال کہلاتا ہے جو بائع یا مشتری کی جانب سے اُجرت پر سودا کرتا ہے ،اِس کو آڑھتی بھی کہتے ہیں اورانگریزی میں اِس کو کمیشن ایجنٹ (Commission Agent)کہتے ہیں ۔ آڑھتی سے متعلق ایک حدیث کے مطلب کی وضاحت : عن ابی ھریرة ان رسول اللّٰہ ۖ قال لا یبیع حاضرلباد ۔ (مسلم) '' حضرت ابوہریرة رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ ۖنے فرمایا شہری دیہات والے کے لیے فروخت نہ کرے''۔ حد یث کا یہی مطلب حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے بھی منقول ہے ۔ عن طاوس قال قلت لابن عباس رضی اللّٰہ عنہ ما قولہ حاضرلباد قال لایکن لہ سمسارا۔ (مسلم) طاوس کہتے ہیں میں نے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ حاضر لباد کا کیا مطلب ہے؟ انہوںنے فرمایا شہری دیہات والے کے لیے دلال اورآڑھتی نہ بنے ۔ کوئی شخص کسی دوسرے سے اپنا مال بکوائے یا ایک دوسرے کو کہے کہ میں تمہارامال فروخت کرتاہوں اِس میں کوئی شرعی قباحت نہیں ہے پھر بھی حدیث میں جو ممانعت ہے وہ اِس پر محمول ہے کہ شہر کا دلال اورآڑھتی آئے