ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اکتوبر 2005 |
اكستان |
|
جس طرح غلط ہے اس سے کہیں زیادہ غلط یہ نظریہ ہے کہ'' ایک مجلس کی تین طلاق کو ایک مانا جائے،تین ماننا قرآن کے خلاف ہے ۔'' اس لیے کہ جب قرآن میں سرے سے اس کا ذکر ہی نہیں ہے تو ایک ماننے کو قرآن کے حکم کے موافق اورتین ماننے کو قرآن کے خلاف بتانا کہاں کا انصاف ہے؟ اور تمام اصولیین کے نزدیک یہ قاعدہ مسلَّم ہے کہ جب کوئی حکم قرآن میں مذکور نہ ہو تو احادیث کی طرف رجوع کیا جائے گااور احادیث کے مطابق فیصلہ کیا جائے گا اوراِس صورت میں حدیث ''جآء بحکم لم یزکرفی القرآن الکریم ''کے قبیل سے ہوگی ۔ طلاق ثلاثہ اورائمہ مجتہدین : پہلے ہم ایک مجلس کی تین طلاق کی بابت ائمہ اربعہ رحمہم اللہ (جو اسلام کے سب سے اعلیٰ اورممتاز ترین ماہر قانون تھے)کا نظریہ ذکر کریں گے کہ اِن حضرات نے ایک مجلس کی تین طلاق کو ایک مانا ہے یا تین ، پھر اُن احادیث وآثار کو ذکرکریں گے جن میںایک مجلس کی تین طلاق کا ذکر ملتا ہے کہ ان احادیث وآثار میں آپ ۖ اورصحابہ کرام نے کیا فیصلے اورفتوے صادر فرمائے۔ امام نووی ایک مجلس کی تین طلاق کے بارے میں ائمہ اربعہ کا نظریہ اس طرح بیان کرتے ہیں کہ علماء کا اُس شخص کے بارے میں اختلاف ہے جو اپنی بیوی سے انت طالق ثلاثا کہے (میں تجھے تین طلاق دیتا ہوں)۔ امام شافعی ،امام مالک ، امام ابوحنیفہ ، امام احمد اورجمہور علماء سلف وخلف اس بات کے قائل ہیں کہ تینوںواقع ہو جائیں گی۔ (شرح نووی علی صحیح مسلم : ٥/٣٢٨ ، تحقیق حازم محمد واصحابہ ، طباعت : ١٩٩٥ء ) امام نووی کے اِس بیان سے معلوم ہوگیا کہ ائمہ اربعہ نے ایک مجلس کی تین طلاق کو تین ہی مانا ہے ، ایک نہیں مانا۔ لیکن افسوس غیر مقلدین پر نہیں ہے بلکہ حیرت اورتعجب اُن لوگوں پر ہے جو اپنے آپ کو مقلد بھی ظاہر کرتے ہیں اورکہتے بھی ہیں ، پھر بھی ائمہ اربعہ کے مسلک کو پس پشت ڈال دیتے ہیں اورمجلس کی تین طلاق کو ایک ماننے پر اصرار کرتے ہیں اورکہتے ہیں کہ تین ماننا اسلامی انصاف اورقانون کو مسخ کرنا ہے۔ اب ہم اُن احادیث کو ذکر کریں گے جن میں ایک مجلس کی تین طلاق کا ذکر ملتا ہے۔ طلاق ثلاثہ اوراحادیث : (١) حضرت عائشہ سے مروی ہے کہ ایک صحابی نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دیں ،اُس عورت نے دوسرا نکاح کرلیا۔ دوسرے شوہر نے بھی (قبل الوطی )طلاق دے دی ۔آپ ۖسے پوچھا گیا کہ کیا وہ پہلے مرد کے