ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اکتوبر 2005 |
اكستان |
|
کچھ زائد وصول نہ کرے تب بھی یہ جائز نہیں ہے کیونکہ گاہک نے اِس کو بروکر سمجھ کرپُرزہ دِلوانے کو نہیں کہا۔ (ii) ڈاکٹرمریض کو ایکسرے یا ٹیسٹ لکھ کردیتا ہے اورکہتا ہے کہ یہ فلاں لیبارٹری سے کروائو۔ ڈاکٹر کا اُس لیبارٹری سے معاہدہ ہے کہ وہ مریض بھیجنے پر اِتنی دلالی لے گا ۔ یہ جائز نہیں کیونکہ مریض کو ڈاکٹر کابروکر کے طورپر کا م کرنا معلوم نہیں۔ وجہ یہ ہے کہ جب بیچ کے آدمی کا بروکر اوردلال ہونا معلوم نہ ہو تو آدمی اُس سے ہمدردی کی بنیاد پر تعاون طلب کرتا ہے اورسمجھتا ہے کہ وہ اُس کی بے لوث رہنمائی کرے گا جبکہ بروکر دلال اپنے مفاد کو پیشِ نظر رکھتا ہے اوراِس کے کام میں بے لوث رہنمائی نہیں ہوتی، اِس طرح سے رہنمائی لینے والے فریق کو دھوکہ ہوتا ہے۔ کمیشن ایجنٹ دلال کی اُجرت : دلال اُجرت کا اُس وقت مستحق بنتا ہے جب وہ کام پورا کرلے مثلاً جب آڑھتی سامان فروخت کرلے اُس وقت وہ اُجرت لینے کا مستحق بنتا ہے۔ ولا یستحق المشترک الاجرحتی یعمل کالقصارونحوہ کفتال وحمال ودلال وملاح ۔ (ردالمحتار ص ٤٤ ج٥) بروکر اورکمیشن ایجنٹ کا فیصد کے حساب سے اُجرت لینا جائز ہے : قال فی التتارخانیة وفی الدلال والسمسار یجب اجرالمثل وما تواضعوا علیہ ان فی کل عشرة دنانیر کذا فذلک حرام علیھم وفی الحا وی سئل محمد بن سلمة عن اجرة السمسار فقال ارجوانہ لا باس بہ وان کان فی الاصل فاسدا لکثرة التعامل۔(ردالمحتار ص٤٤ ج٥) کمیشن ایجنٹ دلال کی اُجرت معین کرنا ضروری ہے اگرچہ فیصد کے حساب سے ہو : (١) زید کے پاس ایک گاڑی ہے جو وہ فروخت کرنا چاہتا ہے ۔ وہ ایک شوروم والے کے پاس جاتا ہے اورکہتا ہے کہ میری گاڑی فروخت کردیں ۔قیمت میں سے دولاکھ مجھے دیں اور اُوپر جتنی رقم ملے وہ آپ رکھ لو۔ شوروم والے وہ گاڑی سوادولاکھ میں فروخت کرکے دولاکھ زید کو دیتے ہیں اورپچیس ہزار اپنے پاس رکھتے ہیں، تو یہ