ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اکتوبر 2005 |
اكستان |
|
طلاق کی قسمیں : طلاق کی تین قسمیں ہیں : (١) ''طلاق احسن'' یعنی شوہر بیوی کو ایک طلاق دے،ایسے طہرمیں جو جماع سے خالی ہو اور اُسی حالت میں بیوی کو چھوڑ دے تاآنکہ عدت پوری ہوجائے یا رجوع کرنا چاہے تو زمانہ عد ت میں رجعت کرلے۔ (٢) طلاق کی دوسری قسم'' طلاق حسن'' ہے یعنی مدخول بہا عورت کو تین طلاق الگ الگ طہر میں دے (٣) تیسری طلاق کو'' طلاق بدعی'' کہتے ہیں۔ اس کی دو صورتیں ہیں ،پہلی صورت یہ ہے کہ شوہر بیوی کو ایک ہی مجلس میں تین طلاق دے اور دوسری صورت یہ ہے کہ ایک ہی طہر میں تین طلاق (الگ الگ مجلس میں) دے ۔ (ہدایہ ١/٢٢١، مطبوعہ بیروت ، ١٩٩٥ء ) اول الذکر دوقسموں کاذکر قرآن وحدیث دونوں میں موجود ہے ، پہلی قسم کا ذکر قرآن کی اِس آیت میں ہے یٰاَیُّھَا النَّبِیُّ اِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَآئَ فَطَلِّقُوْھُنَّ لِعِدَّتِھِنَّ (سورہ طلاق:١) اے نبی ۖ جب آپ طلاق دیں عورتوں کو تو اُن کو طلاق دیجئے اُن کی عدت پر، یعنی طہر میں طلاق دیجئے تاکہ اُس کے بعد والا حیض عدت میں شمار ہو جائے اور حدیث سے یہ قید بھی ثابت ہے کہ اُس طہر میں صحبت نہ کی ہو چنانچہ حدیث میں آتا ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے اپنی بیوی کو حیض کی حالت میں ایک طلاق دے دی ، حضرت عمر نے آپ ۖ سے اِس کا ذکر کیا تو آپ ناراض ہو گئے اورکہا کہ ابن عمر کو رجوع کرلینا چاہیے اوربیوی کو نکاح میں باقی رکھنا چاہیے تاآنکہ عورت کود وسرا حیض آجائے اور اُس حیض سے پاک ہو جاوے تو اب اگر ابن عمر کو مناسب معلوم ہو تو بیوی کو ایسے طہر میں طلاق دے جس میں جماع نہ کیا ہو، الخ ۔ (نسائی ٣٣٩١، بخاری ٥٢٥١،مسلم ١٤٧١، ابن ماجہ ٢٠١٩) طلاق کی دوسری قسم کا ذکر اِس آیت میں ہے اَلطَّلَاقُ مَرَّتٰنِ فَاِمْسَاک بِّمَعْروْفٍ اَوْ تَسْرِیْح بِّاِحْسَانٍ (سورہ بقرہ : ٢٢٩) طلاق رجعی دوبارہے ، اِس کے بعد دستور کے موافق بیوی کو رکھنا ہے یا بھلے طریقے سے چھوڑدینا ہے یعنی طلاق جس میں رجعت ہو سکے کل دوبارہے ، ایک یادوطلاق تک تو اختیار دیا گیا کہ عدت کے اندر مردچاہے توعورت کو پھر دستور کے موافق رکھ لے یا بھلی طرح سے چھوڑدے، پھر عدت کے بعد رجعت باقی نہیں رہتی ،ہاں اگر دونوں راضی ہوں تو وہ دوبارہ نکاح کرسکتے ہیں اور اگر تیسری بار طلاق دے گا تو پھر ان میں نکاح بھی درست نہیں ہوگا جبتک کہ دوسرا خاوند اِس سے نکاح کرکے صحبت نہ کرلیوے۔ (ترجمہ شیخ الہند)