ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اکتوبر 2005 |
اكستان |
|
شروع کرائی تو سب کو ایک امام پر جمع کردیا اورمتعدد جماعتوں کاسلسلہ ختم کردیاگیا۔ مسئلہ : اگر کہیں عشاء کی نماز جماعت سے نہ پڑھی گئی ہو تو تراویح بھی جماعت سے نہ پڑھی جائے، اس لیے کہ تراویح عشاء کے تابع ہے۔ مسئلہ : جہاں جماعت سے عشاء کی نماز پڑھ کر تراویح جماعت سے پڑھ رہے ہوں اُن کے ساتھ شریک ہوکر اُس شخص کو بھی تراویح کا جماعت سے پڑھنا درست ہے جس نے عشاء کی نماز بغیر جماعت کے پڑھی ہے۔ مسئلہ : وہ شخص جس نے تراویح پڑھانی ہیں اُس نے اگر عشاء کے فرض تنہا پڑھے ہوں تو اُس کے لیے تراویح کی امامت مکروہ ہے لیکن اُس کے مقتدیوں کی نماز بلاکراہت صحیح ہوگی۔ مسئلہ : اگر کوئی شخص مسجد میںایسے وقت پہنچے کہ عشاء کی نماز ہو چکی ہوتو اُسے چاہیے کہ پہلے عشاء کی نماز پڑھ لے پھر تراویح میں شریک ہو۔ اگر اِس درمیان میں تراویح کی کچھ رکعتیں ہو جائیں تو اُن کو وتر پڑھنے کے بعد پڑھے اوریہ شخص وترجماعت سے پڑھے۔ مسئلہ : اگر کسی نے تراویح کی دوسری رکعت میں قعدہ نہیں کیا اورتیسری رکعت کے لیے کھڑا ہوگیا تو اگر اُس کوقیام میں یاد آگیا یعنی تیسری رکعت کے سجدہ کرنے سے پہلے پہلے یاد آگیا توچاہیے کہ لوٹے اورقعدہ کرے اورسجدہ سہو بھی کرے۔ اوراگر تیسری رکعت کا سجدہ کرلینے کے بعد یاد آیا تو ایک رکعت اورپڑھ کر سجدہ سہو کر کے نماز سے فارغ ہو، اِس صورت میں اُس کی دورکعتیں تراویح شمار ہوں گی اوردو رکعتیں نفل ہوں گی۔ جہاں تک قرأت کا تعلق ہے تو بہتر یہ ہے کہ پہلی دو رکعتوں میں کی گئی قرأت کا اعادہ کرلے لیکن اگر وہ بہت زیادہ مقدارہو کہ مقتدیوں پرگراںگزرے گی تو اِس قول پر عمل کیا جاسکتا ہے کہ پڑھی ہوئی پوری مقدار معتبر ہوگی۔ مسئلہ : مہینے میں ایک مرتبہ قرآن مجید کا ترتیب وار تراویح میں پڑھنا سنت موکدہ ہے اورلوگوں کو کاہلی اورسستی سے اِس کو ترک نہ کرنا چاہیے، ہاں اگریہ اندیشہ ہو کہ اگر پورا قرآن مجید پڑھا جائے گا تولوگ نماز میں نہ آئیں گے اور جماعت ٹوٹ جائے گی یا اُن کو بہت ناگوارہوگا تو بہترہے کہ جس قدر لوگوںکو گراں نہ گزرے اُسی قدر پڑھا جائے ۔ الم ترکیف سے اخیر تک دس سورتیں پڑھ دی جائیں ، ہر رکعت میں ایک سورت، پھر جب دس رکعتیں ہو جائیں تواِن ہی سورتوں کو دوبارہ پڑھ لے یا اور جو سورتیں چاہے پڑھے۔