ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اکتوبر 2005 |
اكستان |
ن کو مستقیم الحدیث سے یاد کرتے ہیں (ملاحظہ ہو: تہذیب التہذیب : ٨/٩٤)۔ اسی طرح سلمہ بن فضل کی امام ابن معین نے ایک روایت میں توثیق کی ہے ، علامہ ابن سعد اِن کو ''ثقہ صدوق''کہتے ہیں،امام ابودائود بھی اِن کو ثقہ کہتے ہیں،اما م احمد فرماتے ہیں کہ مجھے اِن کے بارے میںخیر ہی معلوم ہے ۔ (دیکھئے تہذیب التہذیب لابن حجر : ٤/١٥٣) آثار صحابہ : ایک مجلس کی تین طلاق کے جواز اوروقوع پراحادیث صحیحہ مرفوعہ سے استدلال کے بعد اب ہم صحابہ کرام کے فتاوٰی اورآثار کو ذکر کررہے ہیں کہ صحابہ کرام نے مجلس کی تین طلاق کو ایک نہیں مانا بلکہ تین مانا ہے اوروہ آثار درج ذیل ہیں : (١) مجاہد کہتے ہیں کہ حضرت ابن عباسکے پاس ایک آدمی آیا اور کہا کہ میں نے اپنی بیوی کو تین طلاق دے دی ہیں، حضرت ابن عباس خاموش رہے ۔مجاہد کہتے ہیں کہ میں نے سوچا کہ ابن عباس بیوی کو اِس آدمی کے نکاح میں لوٹا دیں گے ،پھر ابن عباس نے کہا : تم لوگ حماقت کا کام کرتے ہو پھر آکر چلاتے ہو ،اے ابن عبّاس ، اے ابن عبّاس ، اللہ فرماتا ہے : ومن یتق اللّٰہ یجعل لہ مخرجاً، اورتم اللہ سے نہیں ڈرتے اس لیے میرے یہاں تمہارے لیے کوئی سبیل نہیں ہے ، تم نے اپنے رب کی نافرمانی کی اورتمہاری بیوی تم سے جد اہو گئی ۔ (اخرجہ ابودائود: ٢١٩٧، دار قطنی : ٤/١٣) (٢) حضرت سعید بن جبیر کہتے ہیں کہ ایک آدمی نے اپنی بیوی کو ایک ہزار طلاق دے دیں ، حضرت ابن عبّاس نے کہا تمہارے لیے کافی تھا کہ تین طلاق دے دیتے اوربقیہ نوسوستانوے ترک کر دیتے۔ (دارِقطنی ٤/١٢) (٣) مدینہ میں ایک مسخرے آدمی نے اپنی بیوی کو ایک ہزار طلاق دے دیں ، حضرت عمر کے پا س استفتاء آیا ، آپ نے کہا کہ کیا تم نے اپنی بیوی کو طلاق دی ہے ، اُس آدمی نے کہا نہیں ، میری نیت طلاق کی نہیں تھی میں تو مذاق کررہا تھا۔ حضرت عمر نے اُس کو کوڑے لگائے اورکہا کہ تین طلاق دینا کافی تھا۔ (عبدالرزاق فی المصنف ١١٣٤٠ ،بیہقی: ٧/٣٣٤) (٤) ایک آدمی حضرت علی کے پاس آیا اورکہا کہ میں نے اپنی بیوی کو ایک ہزار طلاق دی ہیں، آپ