ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اکتوبر 2005 |
اكستان |
|
جائو۔ رحمت تمہارے حصے میں نہ آنے پائے ایسے نہ کرو ، غفلت منع ہے ۔ذکر کسی نہ کسی طرح کرتا رہے آدمی یہ مطلوب ہے ،ہر آدمی اُس مقام پر پہنچ جائے جو بڑے بڑے حضرات کا مقام ہے وہ تو کارِدارد ہے لیکن اتنا جتنا کہ حدیث میں بتایا ہے اُتنا ہر آدمی کرتار ہے اور اِس سے کیا فائدہ حاصل ہو تا ہے تو فائدہ ایک نسبت کا حاصل ہو جاتا ہے ۔ نسبت کا مطلب : نسبت کے معنٰی کیا ہیں؟ نسبت کے معنٰی ہیں ایمان کی قوت، اللہ کی ذات کے ساتھ دل کا ایک ربط خاص مضبوط قسم کا وہ نسبت کہلاتا ہے۔ یہ اذکارِ مسنونہ ، تلاوت ، تسبیح ،تہلیل وغیرہ اگر کرتے رہیںایک عرصہ تک تو یہ نسبت حاصل ہوجاتی ہے۔ قرآن پاک پڑھنے پڑھانے والے کو بھی ،تفسیر پڑھنے پڑھانے والوںکو بھی ، حدیث اورعلوم دینی جو پڑھتے پڑھاتے ہیں اُن کو بھی اسی طرح سے حاصل ہوجاتی ہے ایک نسبتِ خاص تعلق مع اللہ قوی قسم کا جس کے بعد پھر شک وتردد نہیں آتا اور اللہ اُس کو کفر سے اورکفر یات سے محفوظ رکھتا ہے۔ تو آقائے نامدار ۖ نے یہ طریقے بتائے وہ کلمات بتائے جو خدا کو بہت پسند ہیں اورکتنے پسند ہیں وہ مثال دے دے کر بتایا کہ ایسے پسندہیں ایسے پسند ہیںاورایسے پسند ہیں ، کہیں ترازو کا بتادیا، کہیں یہ بتادیا کہ اس کلمے اورخدا کے درمیان قبولیت میں کوئی فاصلہ نہیں ، کوئی چیز حائل نہیں ہے آسمان وزمین کے فاصلے وہ بھی حائل نہیں بلکہ جیسے کوئی فاصلہ ہی نہیں ۔ تو اس طرح سے آقائے نامدار علیہ الصلوة والسلام نے ہمیں تعلیم دی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو عمل کی توفیق نصیب فرمائے، اپنی رضا اورفضل ورحمتوں سے ہمیں دُنیا اورآخرت میں نوازے۔ آمین۔ اختتامی دُعا....................................