ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اکتوبر 2005 |
اكستان |
|
جائز نہیں کیونکہ گاڑی سوا دولاکھ میں فروخت ہوئی وہ کل رقم گاڑی کا بدل ہے اور چونکہ گاڑی زید کی تھی لہٰذا گاڑی کا کل بدل بھی زید کی ملکیت ہوا۔ ایسی صورت میں پوری قیمت زید کی ہے اورشورُوم والوں کو اپنے کام کی مارکیٹ ریٹ کے مطابق اُجرت ملے گی جس کو'' اُجرت ِمثل ''کہتے ہیں لیکن چونکہ اُجرت نامعلوم رکھنے سے گناہ بھی ہوتا ہے اِس لیے ضروری ہے کہ پہلے ہی سے اُجرت طے کرلی جائے اگرچہ وہ فیصد کے حساب سے ہو۔ (٢) زید نے ایک دکاندار سے کپڑے کے چند تھان لیے اورگھوم پھر کر اُن کو فروخت کیا۔ حاصل شدہ قیمت دُکاندار کی ہوگی البتہ زید کو مارکیٹ ریٹ کے حساب سے کمیشن یعنی اُجرت ِمثل ملے گی۔ بازار کے کسی آدمی سے سودا بکوایا تواُس کی اُجرت کے استحقاق میں دارومدار بازار والوں کے رواج پر ہوگا : بازار میں ایک شخص کو یا دکاندار کو کہا کہ ہمارا سامان فروخت کردو اوراُجرت کا کچھ ذکر نہیں کیا ۔ سامان فروخت کرکے اُس شخص نے اُجرت کا سوال کیا تو بازار والوں کے رواج کودیکھیں گے ،اگر اُن میں رواج ہو کہ اُجرت پر کام کرتے ہیں بغیر اُجرت کے نہیں کرتے تواُس شخص کو اُجرتِ مثل ملے گی ورنہ نہیں۔ استعان برجل فی السوق لیبیع متاعہ فطلب منہ اجرا فالعبرة لعادتھم ای لعادة اھل السوق فان کانوا یعملون باجر یجب اجرالمثل والا فلا ۔ (ردالمحتار ص٢٩ ج٥) کمیشن ایجنٹ پر تاوان : کمیشن ایجنٹ کے پاس مالک کا سامان بطورِ امانت ہوتا ہے لہٰذا اِس میں امانت کے احکام جاری ہوتے ہیں اورمال کے ضائع ہونے کی صورت میں دیکھا جائے گا کہ کمیشن ایجنٹ کا قصور وکوتاہی ہے یا نہیں؟ اگر اُس کے پاس مال کسی قدرتی آفت سے ہلاک ہوا یا چوری ہوا یا کوئی اورحادثہ پیش آیا جس میں کمیشن ایجنٹ کی کچھ کوتاہی نہ ہو تو نقصان مالک کا ہوگا ،اوراگر مال کے ضائع ہونے میں کمیشن ایجنٹ کی کوتاہی کو دخل ہو تو اُس کو مال کا تاوان بھرنا پڑے گا۔ مسلم دلال جو کمیشن پر کسی کا مال گھوم پھر کر بیچتاہو اُس نے اگر دُکاندار سے لیا ہوا مال کسی دوسرے دُکاندار کے پاس امانت کے طورپر رکھا اور دوسرے دُکاندار کے پاس وہ مال ہلاک وضائع ہوگیا تو اُس دلال پر