ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اکتوبر 2005 |
اكستان |
|
ایک مجلس کی تین طلاق احادیث ِصحیحہ اور آثارِ صحابہ کی روشنی میں ( حضر ت مولاناابو طلحہ قاسمی خیرآبادی ، انڈیا ) تین طلاق کا جواز اوروقوع ،احادیث ِصحیحہ اورآثار صحابہ سے ثابت ہے۔ ع خود کو بدلتے نہیں قرآں کو بدل دیتے ہیں آج کل ایک مجلس کی تین طلاق کا مسئلہ پورے ہندوستان بلکہ عالمی پیمانے پر اُچھالا جارہا ہے کہ ایک مجلس کی تین طلاق ایک مانی جائے گی تین نہیں اورانتہائی جرأت وبے باکی سے کہا جارہا ہے کہ ''حضرت محمد ۖ کی کوئی ایک حدیث بھی مجلس کی تین طلاق کی حمایت میں وارد نہیں ہوئی ہے اورطلاق ِثلاثہ کو آپ ۖ کی منظوری حاصل نہیں ہے ''اور یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ ''طلاق انسان کا بنایا ہوا قانون ہے اور دعوٰی کرنا کہ طلاق کا قانون وحی پر مبنی ہے کھلی بے ایمانی ہے''۔ اس سلسلہ میں سب سے پہلی بات یہ ہے کہ شریعت کے نزدیک بیوی کو طلاق دینا انتہائی مبغوض اور مکروہ فعل ہے ،طلاق کو آپ ۖ نے اَبْغَضُ الْحَلَالْ کہا ہے (رواہ ابن ماجہ : ٢٠١٨ ) اورقرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ اگر میاں بیوی میں ناچاقی پیدا ہو جائے تو (مطلقاً طلاق کے بجائے )باہمی صلح ومصالحت کا طریقہ اختیار کرو بایں طور کہ شوہر کے گھرانے سے ایک ذمہ دار شخص اورعورت کے گھرانے سے ایک ذمہ دار شخص صلح و مصالحت کی کوشش کریں (سورة نساء : ٣٥)لیکن اگر صلح ومصالحت سے کام نہ چلے اور میاں بیوی میں اتفاق کی کوئی صورت نظرنہ آئے تو مجبوراً طلاق جیسے مبغوض عمل کی شریعت نے اجازت دی ہے۔ اب شوہر کتنی طلاق دے، ایک ، دو، یاتین نیز تین طلاق دینے کی صورت میں ایک ہی طہر میں تینوں دے یا الگ الگ طہر میں اوراگر ایک طہر میں تین طلاق دے رہا ہے تو ایک مجلس میں دینا چاہیے یا الگ الگ مجلس میں ۔ ان سب چیزوں کا بیان مندرجہ بالاآیت میں نہیں ہے بلکہ ان میں سے بعض کا بیان قرآن کریم کی دوسری آیات میں ہے اوربعض چیزوں کا بیان قرآن کریم میں سرے سے ہے ہی نہیں ،ان کا ذکر صرف احادیث صحیحہ میں ہے جس کی تفصیل مَالَہ وَمَاعَلَیْہِ کے ساتھ درج ذیل ہے۔