ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اکتوبر 2005 |
اكستان |
|
گلدستہ احادیث حضرت مولانا نعیم الدین صاحب دو خصلتیں جن کے اپنانے پر انسان کو صابر وشاکر قرار دیا جاتا ہے عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَیْبٍ عَنْ اَبِیْہِ عَنْ جَدِّہ عَنْ رَّسُوْلِ اللّٰہِ ۖ قَالَ : خَصْلَتَانِ مَنْ کَانَتَافِیْہِ کَتَبَہُ اللّٰہُ شَاکِرًا صَابِرًا، مَنْ نَظَرَفِیْ دِیْنِہ اِلٰی مَنْ فَوْقَہ فَاقْتَدٰی بہ وَنظَرَ فِیْ دُنْیاَہُ اِلٰی مَنْ دُوْنَہ فَحَمِدَ اللّٰہَ عَلٰی مَا فَضَّلَہُ اللّٰہُ عَلَیْہِ کَتَبَہُ اللّٰہُ شَاکِرًا صَابرًا ، وَمَنْ نَظَرَ فِیْ دِیْنِہ اِلٰی مَنْ ھُوَدُوْنَہ وَنَظَرَفِیْ دُنْیَاہُ اِلٰی مَنْ ھُوَ فَوْقَہ فَاَسِفَ عَلٰی مَافَاتَہ مِنْہُ لَمْ یَکْتُبْہُ اللّٰہُ شَاکِرًاوَلَاصَابِرًا ۔(ترمذی بحوالہ مشکٰوة ص٤٤٨) ُُحضرت عمرو بن شعیب اپنے والد سے اور وہ اپنے دادا حضرت (عبداللہ بن عمرو )سے اور وہ رسولِ اکرم ۖسے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا : دوخصلتیں ایسی ہیںکہ وہ جس میں پائی جاتی ہیں اللہ تعالیٰ اُسے صابر وشاکر لکھتے ہیں، ایک یہ کہ جب وہ شخص دینی معاملہ میں ایسے آدمی کو دیکھے جو اِس سے برتر ہوتو اُس کی اقتدا کرے، دوسرے یہ کہ جب وہ شخص اپنی دُنیا کے معاملہ میںاُس آدمی کودیکھے جو اُس سے کم تر ہو تو اللہ تعالیٰ کی حمد وثناء کرے اوراُس کا شکر ادا کرے کہ اُس نے اِسے اِس شخص پر فضیلت وبرتری عطا فرمائی ہے، ایسے شخص کو اللہ تعالیٰ صابروشاکر لکھتے ہیں ۔اور جو شخص ایسا ہو کہ اپنے دینی معاملہ میں تو اپنے سے کم تر پر نظر رکھے اوردُنیاوی معاملہ میں اپنے سے برتر پر نظر رکھے اوراُس چیز پر رنج وغم کرے جس سے وہ محروم ہے تو ایسے شخص کو اللہ تعالیٰ نہ شاکر لکھتے ہیں نہ صابر۔ ف : مذکورہ حدیث شریف میں اول الذکر شخص کے بارہ میں جو فرمایاگیا ہے کہ اللہ تعالیٰ اُسے صابر وشاکر لکھتے ہیں اِس سے مراد یہ ہے کہ اُسے مومن کامل بنادیتے ہیں اور مؤخر الذکر شخص کو صابر وشاکرقرار نہ دینے کی وجہ یہ ہے کہ اُس نے کمالِ ایمان کی جن دوخصلتوں کا مذکورہ حدیث پاک میں تذکرہ کیا گیا ہے اُن میںسے کسی ایک کو بھی اختیار نہیں کیا بلکہ اُن کے برخلاف اُس نے جزع وفزع اورشکوہ وشکایت کو اختیار کیا۔