ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اکتوبر 2005 |
اكستان |
عادل عبدالموجود واصحابہ ، مطبوعہ بیروت ، طباعت ٢٠٠٠ئ) حافظ ابن حجر نے اِس کا جواب یہ دیا ہے کہ اِس حدیث سے ایک مجلس کی تین طلاق کے جواز پر استدلال اس بات سے ہے کہ جب حضرت عویمر نے آپ ۖ کے سامنے ایک مجلس میں تین طلاق دیں تو آپ ۖنے نکیر نہیں فرمائی ، اگر تین طلاق دینا (ایک مجلس میں )ناجائز اورحرام ہوتا توآپ ۖ ضرور نکیر فرماتے، قطع نظر اِس سے کہ فرقت تو نفس لعان سے ہوگئی یا نہیں ، ان کی بیوی محل طلاق تھی یا نہیں (دیکھئے : فتح الباری ٩/٣٦٧)۔ (٦) سوید بن غفلہ کہتے ہیں کہ جب حضرت علی شہید کردئیے گئے تو حسن بن علی کی بیوی عائشہ خثعمیہ نے آکر حضرت حسن سے کہا: آپ کو خلافت مبارک ہو ، حضرت حسن نے کہا : امیر المومنین کی شہادت پر مجھے مبارک باد دیتی ہے، جا ! تجھے طلاق دیتا ہوں (ایک روایت میں تین طلاق کا ذکر ہے، دیکھئے ، دارقطنی: ٤/٣٠) اور حضرت حسن نے کہا : اگر میں نے اس کو طلاق بائن نہ دی ہوتی تو میں اِس سے رجعت کرلیتا، مگر میں نے اللہ کے رسول ۖ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جو آدمی اپنی بیوی کو تین طلاق دے ہر طہر میں ایک طلاق یا ہرمہینے کے شروع میں ایک طلاق یا بیک وقت (ایک مجلس میں )تین طلاق دے تو اُس کے لیے وہ عورت حلال نہ ہوگی یہاں تک کہ وہ دوسرے شوہر سے نکاح کرلے (اخرجہ الدار قطنی : ٤/٣١، والبیہقی : ٧ /٣٣٦) ۔اس روایت سے معلوم ہوا کہ اکٹھی تین طلاق دے چکنے کے بعد رجوع کرنا ایسا ہی حرام ہے جیسا کہ متفرق طورپر تین طہر میں تین طلاقیں دینے کے بعد حرام ہے، اگر دفعتاً تین طلاقیں دینے کے بعد بھی رجوع کی کوئی امکانی صورت باقی ہوتی تو حضرت حسن ضرور مراجعت فرمالیتے۔ اس حدیث پر جو اعتراض کیا گیا ہے وہ بقول مولانا شمس الحق صاحب عظیم آبادی غیر مقلد یہ ہے کہ اِس کی سند میں دوراوی ضعیف ہیں، پہلا راوی عمروبن ابی قیس ہے اوردوسر ا سلمہ بن فضل ہے اوریہ بھی اُن کے بقول ضعیف ہے ۔ (دیکھئے التعلیق المغنی علی الدارقطنی : ٤/٣١) لیکن غیر مقلد صاحب کا یہ اعتراض اصول حدیث کے پیشِ نظر کوئی وزن نہیں رکھتا اورمذکورہ حدیث حسن سے کسی طرح کم نہیں ہے کیونکہ عمرو بن ابی قیس سے امام بخاری نے تعلیقاً روایت کیا ہے اورامام ابو دائود ،نسائی ، ترمذی اورابن ماجہ نے اِن سے استدلال کیا ہے، ابن ِحبان اور ابن ِشاہین ان کو ثقات میں لکھتے ہیں اورامام بزار