ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اکتوبر 2005 |
اكستان |
|
نے فرمایا: تین طلاق نے بیوی کو تم پر حرام کردیا ہے یعنی بقیہ نوسو ستانوے لغوہو گئیں ۔ (بیہقی ٧/٣٣٥) (٥) محمد بن ایاس کہتے ہیں کہ ابن عباس ،ابو ہریرہ اورعبداللہ بن العاص تینوں سے اُس شخص کے بارے میں پوچھا گیا جس نے اپنی بیوی کو قبل الدخول طلاق دے دی ، تینوں نے کہا عورت اِس کے لیے حلال نہیں ہے جب تک کہ دوسرے شوہر سے شادی نہ کرلے (ابودائود: ٢١٩٩)بیہقی کی روایت میں یہ زیادتی ہے کہ ابن عباس اور ابوہریرہ نے اِس آدمی کی مذمت نہیں کی کہ اس نے تین طلاق کیوں دی اورنہ ہی عبداللہ بن عمرو نے یہ کہا کہ تین طلاق دے کر تم نے بہت برا کام کیا۔ (اخرجہ البیہقی : ٧/٣٣٠) (٦) حضرت عبدالرحمن بن عوف نے اپنی بیوی تماضر بنت الاصبغ کو کلمہ واحدة (ایک مجلس میں )تین طلاق دے دیں ، عبدالرحمن کے شاگرد ابوسلمہ کہتے ہیںکہ کسی روایت سے ہمیں یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ کسی صحابی رسول نے آپ پر نکیر کی ہو۔ (دارِقطنی : ٤/١٢) (٧) مسلمہ بن جعفر احمسی کہتے ہیں کہ میں نے اپنے استاذجعفر بن محمد سے پوچھا کہ بعض حضرات کہتے ہیں کہ جس نے نادانی میں بیوی کو طلاق دے دی تو اُس کو سنت کی طرف لوٹایا جائے گا یعنی ایک طلاق واقع ہوگی اور اس بات کو آپ سے روایت کرتے ہیں ۔ جعفر بن محمد نے کہا: اللہ کی پناہ چاہتا ہوں ہم نے اِس طرح کی بات نہیں کہی ہے بلکہ جس نے تین طلاق دی تو اُس کے قول کا اعتبار ہوگا یعنی تین طلاق واقع ہوگی ۔(اخرجہ الامام البیہقی: ٧/٣٤٠) طلاق ثلاثہ کے اِن ناقابل تردید حقائق وشواہد کے باوجود ایک مجلس کی تین طلاق کوایک ماننے پر اصرار کے پس پردہ نفسانی خواہشات کی پیروی کے علاوہ اور کون سا جذبہ ہوسکتا ہے، اوراب تو مسلمانوں کا ایک روشن خیال طبقہ مسلم پرسنل لاء میں تبدیلی کا مطالبہ بھی کرنے لگا ہے اوربڑے جذباتی انداز میں تین طلاق کے حکم کو کالعدم قرار دینے اور عورتوں کو طلاق کا حق دینے کی تحریک چلا رہا ہے، ایسے تجدد پسندوں میں تقلید کے مخالفین نمایاں نظرآتے ہیں۔ اگر ایسے دانشور حضرات واقعی مسلمانوں کے ہمدرد ہوتے اوراسلام کی حقیقت پردل سے ایمان رکھتے تو طلاق ثلاثہ کو ختم کرنے کا مطالبہ کرنے کے بجائے مسلمانوں میں دینی بیداری پیدا کرنے کی تحریک چلاتے کہ تین طلاق دینا اگرچہ جائز ہے لیکن اسلام نے اِس حرکت کو مبغوض ترین عمل قراردیا، اِس جائز پر عمل نہ کرنا ہی افضل