ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اکتوبر 2005 |
اكستان |
|
بتادیا تھا، دوبارہ ابن عمر جیسا شخص اِس کے بارے میں پھر سوال کرے یہ ممکن نہیں ہے۔ بیہقی کی روایت پر یہ اعتراض کیا جاتاہے کہ اِس میںایک راوی عطا ء خراسانی ہے اوریہ ضعیف ہے لیکن صحیح بات یہ ہے کہ ابن معین ،امام ابو حاتم ، امام نسائی ، دارقطنی اورابن سعد وغیرہ نے ان کی توثیق کی ہے اورعطاء سنن اربعہ اورمسلم کے رجال میں سے ہیں ،لہٰذا اِن کو ضعیف کہنا غلط ہے ۔ دیکھئے : تہذیب التہذیب /٧/٢١٣، ٢١٤، عطا ء خراسانی کا ترجمہ ) (٥) حضرت عویمر عجلانی کے لعان کی حدیث صحیحین وغیرہ میں ہے ، اُس حدیث کے آخر میں حاضر واقعہ حضرت سہل بن سعد ساعدی کہتے ہیں : فتلا عنا وأنا مع الناس عندرسول اللّٰہ ۖ ، فلما فرغاقال عویمر: کذبت علیھا یا رسول اللّٰہ ان أمسکتھا ، فطلقھا ثلاثاً قبل أن یأ مرہ رسول اللّٰہ ۖ ۔ (بخاری ٥٢٥٩، مسلم ١٤٩٢) ابو دا ؤد کے الفاظ یہ ہیں : فطلقھا ثلاث تطلیقات عند رسول اللّٰہ ۖ فانفذہ رسول اللّٰہ ۖ ۔ (سنن ابی دا ؤد ، حدیث ٢٢٥٠) حضرت سہل بن سعد کہتے ہیں کہ ان دونوں (عویمر اوراُن کی بیوی )نے لعان کیا اور میں بھی لوگوں کے ساتھ حاضر خدمت تھا، جب میاں بیوی لعان سے فارغ ہوگئے تو عویمر نے کہا : اے اللہ کے رسول ۖ ! اگر میں نے اس کو نکاح میں روک لیا تب تومیں نے اس پر غلط الزام لگایا ہے(اورالزام جھوٹا نہ ہونے کی وجہ سے ) حضرت عویمر نے بیوی کوتین طلاق دے دیں ، آپ کی طرف سے حکم صادر ہونے سے پہلے ہی ، اورابودائود کی روایت میں ہے کہ عویمر نے بیوی کو تین طلاق دیں اورآپ ۖ نے تینوں کو نافذ بھی کردیا۔ یہ حدیث اس بات پر نص ہے کہ حضرت عویمر نے لعان کے بعد ایک ہی مجلس میں تین طلاق دی تھیں جیسا کہ ظاہر لفظ سے پتہ چلتا ہے لیکن اِس پر اشکال یہ ہوتا ہے کہ لعان میں میاں بیوی کے درمیان جدائی نفس لعان سے ہو جاتی ہے طلاق دینے کی ضرورت نہیں ہے ،اس لیے جب عویمر اور اِن کی بیوی لعان سے فارغ ہو گئے توان کے درمیان فرقت ہو گئی ، اب عویمر کا طلاق دینا غیر محل (اجنبیہ )میں تھا (دیکھئے : نیل الا وطار: ٤/٣٢١۔تحقیق