ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اکتوبر 2005 |
اكستان |
|
پڑے گااگر ترجیح کی کوئی دوسری صورت اختیار کی گئی ۔ نیز امام ابن ماجہ کی تبویب سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے کہ حفص نے ایک ہی مجلس میںتینوں طلاقیں دی تھیں ، موصوف اِس حدیث پریوں عنوان لگاتے ہیں : من طلق ثلاثاً فی مجلس واحد جس نے ایک مجلس میں تین طلاقیں دیں اورحضرت فاطمہ بنت قیس کی تطلیق کی مذکورہ روایت کو بہ سند ذکر کیا ہے۔ ( ٤) شروع میں حضرت ابن عمر کی تطلیق (طلاق دینے )کی جوحدیث گزری ہے اُس کے بعض طرق میں حدیث کے آخر میں یہ الفاظ ہیں : فقلت (ابن عمر) یارسول اللّٰہ أرأیت لو أنی طلقتھا ثلاثا أکان یحل لی أن أراجعھا ؟قال: لا،کانت تبین منک وتکون معصیة (اخرجہ البیہقی: ٧/٣٣٤) صحیحین کے الفاظ یہ ہیں : وکان عبد اللّٰہ (بن عمر)اذا سئل عن ذالک قال ان کنت طلقتھا ثلاثا فقد حرمت علیک حتی تنکح زوجاً غیرہ ۔ بیہقی کی روایت کی وجہ سے یہ بات متعین ہو جاتی ہے کہ اس میں حضرت ابن عمر نے ثلاث مجموعہ کے بارے میں آپ ۖ سے سوا ل کیا ہے کہ کلمہ واحدہ میں تین طلاق دینے کے بعد رجعت کرنا درست ہے یا نہیں (یعنی تینوں طلاقیں واقع ہو گئیں یا نہیں)۔ آپ ۖنے جواب میں فرمایا کہ اب رجعت نہیں کرسکتے ، اس لیے کہ طلاق کے بعد رجعت کا حق ختم ہو جاتا ہے اور تین طلاق دینا (ایک مجلس میں ) گناہ ہے۔ اس روایت میں ثلاث مجموعہ کے متعین ہونے کی وجہ یہ ہے کہ حضرت ابن عمر نے حالت ِحیض میں بیوی کو ایک طلاق دی، اورآپ کا ارادہ یہ تھا کہ حیض سے پاک ہوجانے کے بعد طہر میں پھر طلاق دوں گاپھر حیض سے پاک ہوجانے کے بعد تیسری طلاق دوں گا ، جب آپ ۖ کو اِس کی اطلاع ہوئی تو ا پ ۖ نے صرف حیض میں طلاق دینے پر نکیر فرمائی کہ تم کوپہلی طلاق حیض کے بجائے طہر میں دینا چاہئے تھا ، سنت طریقہ یہی ہے ، تم رجعت کرلو ۔ پھر آپ ۖ نے سنت طریقے کی وضاحت بھی فرمادی تاکہ بقیہ دوطلاق کے استعمال میں ابن عمر غلطی نہ کریں، اگرچہ اُن کا ارادہ پہلے ہی سے تھا کہ بقیہ دوطلاق طہر میں دوں گا ۔(امام ابن تیمیہ نے ''منتقی الاخبار''میں ابن عمر کے تطلیق کے قصہ میں دار ِ قطنی کے حوالے سے جو حدیث ذکر کی ہے اُس کا مفاد وہی ہے جوابھی ہم نے ذکر کیا ہے ، ملاحظہ ہو: منتقی الاخبار مع شرحہ نیل الاوطار: ٤/٣٢١،رقم ٢٨٥٢) اس حدیث میں اِس بات کی طرف اشارہ ہے کہ ثلاث مفرقہ کا حکم خود آپ ۖ نے پہلے ہی حضرت ابن عمر کو