ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اکتوبر 2005 |
اكستان |
|
لیے حلال ہو گئی ؟ آپ نے فرمایا نہیں جب تک دوسرا شوہر پہلے شوہر کی طرح لطف اندوز نہ ہولے۔ (صحیح بخاری : ٥٢٦١، صحیح مسلم : ١٤٣٣)ایک مجلس کی تین طلاق کو ایک ماننے والے حضرات کہتے ہیں کہ اس حدیث میں''طلق امرأتہ ثلاثاً'' میں ثلاث سے مراد ثلاثِ مفرقہ ہے یعنی یہ تینوں طلاقیں ایک مجلس میں نہیں دی گئی تھیں اس لیے اِس حدیث سے ایک مجلس کی تین طلاق کے جواز پر استدلال فاسد ہے۔ لیکن اِن حضرات کا ثلاث سے ''ثلاثِ مفرقہ'' (تین طہر میں ایک ایک کرکے طلاق دینا)مراد لینا غلط ہے بلکہ ثلاث سے مراد ثلاث مجموعہ (ایک ہی دفعہ تینوں طلاق دینا)ہے کہ صحابی نے دفعتاً واحدہ (ایک مجلس میں) تینوں طلاق دی تھیں ، ثلاث ِمفرقہ مراد لینا خلاف ظاہر ہے اوراِس پر کوئی قرینہ بھی موجود نہیں ہے، اس کے برعکس مجموعہ مرا دلینا ظاہر لفظ کے عین مطابق ہے، نیز ثلاث مجموع کے متعین ہونے کی تائید امام بخاری جیسے حدیث داں اورمحدث کے ترجمة الباب سے ہوتی ہے ، موصوف اِس حدیث پر یوں باب قائم کرتے ہیں ،باب من جوز الطلاق الثلاث۔ اور شارح بخاری حافظ ابن حجر ترجمة الباب کی اس طرح وضاحت کرتے ہیں : ھذا یُرجح أن المراد بالترجمة بیان من أجاز الطلاق الثلاث ولم یکرھہ، اس سے یہ مترشح ہوتا ہے کہ ترجمة الباب کا مقصد اس امر کا بیان ہے کہ تین طلاقوں کو جائز قراردیا اور اُس کومکروہ نہیں سمجھا ۔ (فتح الباری : ٩/٣٦٧) (٢) ایک مجلس کی تین طلاق کے جائز اور آپ ۖ سے ثابت ہونے کی دلیل یہ ہے کہ حضرت عائشہ سے مروی ہے کہ رفاعہ قرظی کی بیوی آپ ۖ کی خدمت میں حاضر ہوئیں اورکہا کہ اے اللہ کے رسول : ان رفاعة طلقنی فبت طلاقی کہ رفاعہ نے مجھے طلاق قطعی دے دی (عدت گزرنے کے بعد) میں نے عبدالرحمن بن زبیر سے نکاح کرلیا۔ لیکن اُن کے اندر قوت رجولیت ختم ہوگئی ہے، آپ ۖ نے فرمایا ! شاید تمہاری خواہش یہ ہے کہ پھر رفاعہ کی زوجیت میںچلی جائو، ایسا نہیں ہوسکتا جب تک کہ وہ (عبدالرحمن )تم سے اورتم اُس سے لطف اندوز نہ ہولو۔( بخاری: ٥٢٦٠) حضرت عائشہ کی پہلی حدیث اوریہ حدیث دونوںالگ الگ ہیں، حافظ ابن حجرنے اِسی کو راجح قرار دیاہے اوردونوں احادیث کو الگ الگ واقعہ پر محمول کیا ہے۔ مجلس کی تین طلاق کا انکار کرنے والے اِس حدیث کے بارے میں کہتے ہیں کہ اس میں طلاق البتہ کا ذکر ہے تین طلاق کا ذکر نہیں ہے لیکن یہ کہنا کم علمی کی دلیل ہے اس لیے کہ خود امام بخاری نے کتاب اللباس میں