ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اکتوبر 2005 |
اكستان |
|
سوال : ایک شخص سال کے اوّل اورآخر میں مالک ِنصاب تھا مثلاًاُس کے پاس اتنے روپے تھے جو ساڑھے باون تولے چاندی کی قیمت بنیں لیکن درمیان سال میں کچھ پیسے خرچ ہوگئے اورکچھ دنوں وہ مالک نصاب نہیں رہا تو کیا اُس پر زکٰوة ہوگی؟ جواب : جو شخص سال کے اوّل اورآخر میں نصاب کا مالک ہو اُس پر زکٰوة ہوگی چاہے سال کے درمیان میں مال نصاب سے کم ہو گیا ہو ،ہاں اگر سال کے درمیان میں اُس کاسارے کا سارا مال ضائع ہو گیا اورسال کے آخر میں پھر کہیں سے مل گیا ، تو اَب گزشتہ سال کی زکٰوة اُس پر نہیں ہے بلکہ جب سے دوبارہ مال آنا شروع ہوا ہے اُس وقت سے اُس کا مالی سال شروع ہوگا۔ سوال : اگر مال سال گزرنے سے چند ہی روز پہلے جاتا رہا تو زکٰوة ہوگی یا نہیں؟ جواب : نہیں ۔ سوال : ایک شخص کے پا س تین ہزار روپے موجود ہیں (گویا وہ صاحب ِنصاب ہے )لیکن یہ اتنے ہی روپوئوں کا قرض دار بھی ہے تو کیا اُس پر زکٰوة ہوگی؟ جواب : اُس پر زکٰوة نہیں ہوگی۔ سوال : ایک تاجر کے پاس ابتداء سال میں تین ہزار روپے تھے جن سے اُس نے تجارت شروع کی ، سال کے آخر میں اُس کے پاس پانچ ہزار روپے جمع ہو گئے تو کیا اِس تاجر کو صرف تین ہزار روپے کی زکٰوة ادا کرنی ہوگی یا پانچ ہزار کی؟ جواب : اِسے پانچ ہزار روپے کی زکٰوة دینی ہوگی۔ سوال : اگر کسی نے سال گزرنے سے پہلے ہی اپنی زکٰوة ادا کردی تو کیاادا ہو جائے گی ؟ جواب : ادا ہو جائے گی۔ سوال : جس کو زکٰوة دی جائے اُسے یہ بتا دینا کہ یہ مال ِزکٰوة ہے ضروری ہے یا نہیں ؟ جواب : یہ ضروری نہیں بلکہ اگر انعام کے نام سے یا کسی غریب کے بچوں کو عیدی کے نام سے دے دو جب بھی زکٰوة ادا ہو جائے گی ۔ سوال : زرعی زمین یا باغ سے پیداوار پر عُشر ہے۔ عُشر کے کیا معنٰی ہیں اوراِس کی ادائیگی کا کیا