ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اکتوبر 2005 |
اكستان |
|
جواب : جو جانور تجارت کے لیے ہوں اُن کی موجودہ قیمت لگا کر زکٰوة دی جائے گی۔ سوال : سواری کے لیے گھوڑا گاڑی یا موٹر ہوتو اُن پر زکٰوة ہوگی یا نہیں ؟ جواب : نہیں۔ سوال : ایک شخص کے پاس دس ہزار روپے تھے ، اُن پر سال گزر گیا،وہ زکٰوة کا ارادہ ہی کررہا تھا کہ سارے روپے چوری ہو گئے ، کیا اِس صورت میں اُس پر زکٰوة فرض ہے یا معاف ہو گئی۔ جواب : سارا مال چوری ہوجانے یا سارے کا سارا مال خیرات کرنے سے زکٰوة معاف ہو جاتی ہے ۔ سوال : زکٰوة کامال مستحق کو خود دینا ضروری ہے یا کسی اور کے ذریعہ بھی دیا جاسکتا ہے ؟ جواب : خود بھی دے سکتا ہے اور کسی دوسرے شخص کے ذریعہ بھی۔ سوال : ایک مالدار مسافر کا سارا مال ضائع ہو گیا گھر میں اگرچہ اُس کا بہت مال موجود ہے لیکن اِس وقت اُس کے پاس کچھ نہیں رہا تو کیا اُسے زکٰوة دی جاسکتی ہے؟ جواب : جی ہاں، ایسے مسافر کو جو حالت ِسفر میں محتاج ہو گیا ہو زکٰوة دی جاسکتی ہے چاہے اُس کے گھر میں اُس کے لاکھوں روپے ہی کیوں نہ ہوں۔ سوال : زکٰوة کی رقم سے مسجد بنانا یا مُردے کا قرض ادا کرنا یا مُردے کا کفن وغیرہ تیار کرنا کیسا ہے؟ جواب : اِن صورتوں میں زکٰوة ادا نہیں ہوگی کیونکہ زکٰوہ کی ادائیگی اُس وقت ہوگی کہ جب کوئی محتاج اُسے لے (زکٰوة کی ادائیگی کے لیے شرط ہے کہ جسے زکٰوة دی جائے اُسے زکٰوة کا مالک بنادیا جائے)۔ سوال : ایک شخص نے کسی کو زکٰوة کامستحق سمجھ کر زکٰوة دی، بعد میں معلوم ہوا کہ وہ تو مالدار ہے یا سیّد ہے، تو کیا وہ شخص دوبارہ زکٰوة دے یا زکٰوة ادا ہوگئی؟ جواب : اگر دینے والے نے مستحق سمجھ کر زکٰوة دی ہے تو زکٰوة ادا ہوگئی ۔اِسی طرح اُس شخص کی بھی زکٰوة ادا ہو جاتی ہے جس نے تاریکی میں اپنی ماں یا دوسرے ایسے رشتہ دار کو جسے زکٰوة نہیں دی جا سکتی ،زکٰوة دے دی اوربعد میں پتہ چلا کہ وہ ایسا رشتہ دار ہے جو اُس کی زکٰوة کا مستحق نہیں ۔ اوراگر کسی نے کسی کو زکٰوة دی اوربعد میں معلوم ہوا کہ وہ کافر ہے تو زکٰوة ادا نہیں ہوئی پھر ادا کرنی ہوگی ۔ یہ بھی یاد رکھناچاہیے کہ اگر مذکورہ بالا صورتوں میںمالدار سیّد اوررشتہ دار کو یہ معلوم ہوگیاکہ یہ زکٰوة کی رقم تھی تو واپس کردیں۔