ماہنامہ انوار مدینہ لاہور ستمبر 2005 |
اكستان |
|
شیخ عطار فرماتے ہیں : '' دیگر باعثِ آن بود کہ بی سببی از کود کی باز، دوستیِ ایں طائفہ درجانم موج می زد و ہمہ وقت مفرح دل من سخن ایشان بود بہ اُمیدِ آنکہ '' المرء مع من احب '' ١ '' ایک وجہ یہ تھی کہ بچپن ہی سے میرے دل میں اس گروہ ( صوفیاء )کی محبت تھی اورمیرا دل ہر وقت اُن کے حالات سے اطمینان پاتا تھا اِس اُمید پر کہ '' بندہ کا انجام اسی کے ساتھ ہو گا جس کو وہ محبوب رکھے گا '' ۔ شیخ اوائل عمر ہی سے علوم وفنون میں مشغول رہے اور اپنی زندگی میں بہت سے بزرگوں سے فیض یاب ہوئے ۔آپ کے کلام میں بہت سے بزرگوں کی منقبت بیان ہوئی ہے مگر معروف یہ ہے کہ آپ نے بعد میں خراسان جاکر شیخ مجدُالدین بغدادی رحمہ اللہ سے خرقہ خلافت حاصل کیا ۔ ٢ شیخ عطار نے اپنی کتاب تذکرة الاولیاء کے مقدمہ میں شیخ مجدُالدین کا تذکرة اس طرح کیا ہے : '' ومن یک روز پیشِ امام مجدالدین محمد خوارزمی رحمة اللہ علیہ درآمدم ۔ او را دیدم کہ می گریست ، گفتم کہ : خیرست ! گفت زہی سپہ سالاران کہ دراین امت بودہ اندکہ، مشابہت انبیاء اندعلیھم الصلٰوة والسلام کہ'' علماء امتی کانبیاء بنی اسرائیل'' پس گفت : ازان می گریم کہ دوش گفتہ بودم کہ خدا وندا ! کارِ تو بہ علت نیست ، مرا ازین قوم گردان یااز قطارگیانِ این قوم، کہ قسمی دیگر را طاقت ندارم ، می گریم ، بود کہ مستجاب باشد ''۔ ٣ '' میں ایک دن شیخ عطار مجدُالدین خوارزمی کی خدمت میں حاضر ہوا ۔ اُن پر گریہ طاری تھا۔ میں نے عرض کیا کہ حضرت کیا معاملہ ہے ؟ فرمانے لگے اس اُمت میں بہت سے سپہ سالاران (یعنی صوفیاء کاملین )ہوئے ہیں جو انبیاء کی مانند ہیں کیونکہ نبی اکرم ۖ نے فرمایا ہے کہ ''میری اُمت کے علماء بنی اسرائیل کے انبیاء کی مانند ہوں گے '' پھر فرمایا کہ ١ تذکرة الاولیاء ڈاکٹر محمد استعلامی ، مقدمہ ص ٨ ٢ تذکرة الاولیاء ڈاکٹر محمد استعلامی ،دیپاچہ از مؤلف ص ٣٣ ٣ تذکرة الاولیاء ڈاکٹر محمد استعلامی مقدمہ از مصنف ص٩،١٠