ماہنامہ انوار مدینہ لاہور ستمبر 2005 |
اكستان |
|
اورریاستی ایجنسیوں کے عقوبت خانوں میں زبردستی اُٹھا کر لے جاتے ہیں۔ ہمارے ہاں ڈاکو بھی جب کسی کو اغوا کرکے لے جاتے ہیں تو ایک مخصوص مقام پر پہنچانے کے بعد گھروالوں کو اطلاع کرتے ہیں کہ آپ کا آدمی ہمارے پاس ہے ہمیں اتنے پیسے دے دو اپنا آدمی لے جائو ۔ والدین بھی ہوشیار ہو جاتے ہیں کہ ہاں ہے تو سہی مگر فلاں جگہ پر ہے۔ اورریاستی ایجنسیاں جس وقت گھر سے اُٹھا کر لے جاتی ہیں پورا سال اُس کے بوڑھے والدین رورو کر بیٹے کا انتظار کرتے ہیں کچھ پتا نہیں ہے کہ تمہارا بیٹا کدھر ہے نہ اس کے خلاف کوئی کیس نہ مقدمہ۔کہتے ہیں کہ یہ سب ملکی مفاد کے لیے کررہے ہیں اورپھر عقوبت خانوں میں جیسے مظالم ہوتے ہیں گونتانا موبے سے آئے ہوئے اب پاکستانی جیلوں میں ہیں اور عقوبت خانوں میں جن لوگوں نے وقت گزاراہے وہ کہتے ہیں کہ ہمارے اُوپر گوانتا ناموبے میں اتنے مظالم نہیں ہوئے جتنے کہ پاکستانی جیلوں میں ہمارے ساتھ ہوئے ہیں، اوریہ سب کچھ کیا ہورہاہے ۔میں یہ سمجھتا ہوں کہ اُمت اپنی تاریخ کے ایک امتحانی دور سے اس وقت گزر رہی ہے لیکن سب کا مقابلہ پورے تحمل اوراستقامت کے ساتھ کریں گے انشاء اللہ ۔اوران حالات میں بھی ہمارے جنرل صاحب کہتے ہیں کہ ہم امریکہ کے اتحادی ہیں ۔آپ بھلے اتحاد ی ہوں لیکن قوم اتحادی نہیں ہے قوم ایسے اتحاد سے براء ت کا اعلان کرتی ہے۔ تو نظر اُس فکر اورنظریہ پر رہنی چاہیے جس نظریہ کے لیے ہمارے ان اکابرین نے زندگیاں وقف کی تھیں پوری زندگی اس مقصد کے لیے لگا دی اورجب دنیا سے گئے تو یہی متاع چھوڑ کر ہمارے حوالے کرگئے ۔یہی علم جو ان جامعات میں دیا جاتا ہے عملی زندگی میں اسی علم کے وہ مصداق بنے ۔اس علم کی وہ تعبیر بنے تو اللہ تعالیٰ ہمیں اس سے وابسطہ رکھے، امتحانات سے اللہ تعالیٰ ہمیں بچائے ہم کمزور بندے ہیں اوراگر آزمائش مقدر میں ہے تو اللہ ہمیں استقامت دے ۔ تو جہاں ہم بیٹھے ہیں جس ماحول میں ہم بیٹھے ہیں جس علم سے ہماری وابستگی ہے جس عقیدہ سے ہماری وابستگی ہے جس تاریخ سے ہماری وابستگی ہے ،ہمیں اِ س پر قانع ہونا چاہیے مطمئن رہنا چاہیے اوراس کے لیے اپنی زندگیاں اُسی طرح وقف کردینی چاہیے جس طرح کہ ہمارے اکابر نے وقف کیں تھیں۔ انھوںنے زندگی وقف کی تو ہم تک پہنچا ہے دین۔اب آپ خود اندازہ لگائیں کہ مراد آباد اوردیوبند اورسہارنپور کے علماء کے ساتھ ہماراکونسا خونی رشتہ ہے کونسا وطنیت کا رشتہ ہے لیکن ان حضرات نے پوری دُنیا کے لوگوں کے دلوں کو جس طرح اپنی طرف کھینچا ہے اورآج جس طرح ان لوگوں کے نام ہمارے دلوں کی دھڑکن بن گئے ہیں آخر کوئی کردار