ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مئی 2005 |
اكستان |
|
سے پاک اور تمام ظاہری وباطنی خوبیوں ، حسن وجمال اورملاحتوں پر مجتمع تھا ۔ مضطر صاحب فرماتے ہیں وہ گول اور طول کو تھوڑا سامائل چہرہ انور مہ و خورشید جس کے سامنے شرمندہ و کمتر اچانک دیکھ لیتا جب کوئی مرعوب ہو جاتا مگر اللہ کا محبوب پھر محبوب ہو جاتا وجاہت اور شوکت بھی جمال دِلبرانہ بھی جلال حسن بھی اور عظمت پیغمبرانہ بھی وہ رُوئے پاک جیسے تیرتا ہو آفتاب اس میں جمال حق کا مظہر آئینہ اُم الکتاب اس میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ فرماتی ہیں : ''زُلیخا کی سہیلیاں اگر حضور ۖ کے چہرہ انور کو دیکھ لیتیں تو ہاتھوں کے بجائے دلوں کو کاٹ دیتیں ''۔(خصائل نبوی ص١٤) یعنی حضرت یوسف علیہ السلام کو دیکھ کر انہوں نے ہاتھوں ہی کوکاٹا تھا مگر آپ ۖ کو دیکھ لیتیں تو دل ہی کاٹ لیتیں۔ ١ حُسنِ یوسف دمِ عیسیٰ یدِبیضا داری آنچہ خوباں ہمہ دارند تو تنہا داری جناب مضطر صاحب نے اس نقشہ کو اپنے اِن اشعار میں خوب اچھے انداز میں کھینچا ہے ۔ ١ حکیم الامت حضرت تھانوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ حسن کی انواع ہیں ۔ حسن کی ایک نوع یہ ہے کہ دیکھنے والے کو دفعةً متحیر کردے اورپھر رفتہ رفتہ اس کی سہار ہوتی جائے ۔ یوسف علیہ السلام کا حسن ایسا ہی تھا چنانچہ زلیخا کو آپ کے حسن کی سہار ہو گئی تھی۔ انہوں نے ایک دن بھی ہاتھ نہیں کاٹے تھے اور ایک نوع حسن کی یہ ہے کہ دفعةً تو متحیر نہ کرے مگر جوں جوں اس کو دیکھا جائے تحمل سے باہر ہوجائے ، جس قدر غور کیا جائے اسی قدر دل میں گھستا جائے ۔ اسی کو ایک شاعر بیان کرتے ہیں ۔ یزیدک وجھہ حسنا اذا مازدتہ نظرا (ترجمہ : آپ ۖ کے چہرے کا حسن بڑھتا ہی جاتا ہے جوں جوں میں اُس کی طرف دیکھتا ہوں )۔حضور ۖ کا حسن ایسا ہی تھا کہ اس میں دفعةً متحیر کردینے کی شان ظاہر نہ تھی۔ (وعظ الرفع والوضع)