ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مئی 2005 |
اكستان |
|
(٢) دوسری کیفیت یہ ہوسکتی ہے کہ جواب تو فوراً ہی دیا جاتاہو لیکن سائل کو کسی ایک متعینہ صورت کے منتخب کرنے کے متعلق جواب دینے سے قبل اللہ سے خیر اوربھلائی کی دُعا مانگ لی جاتی ہو، یہ صورت پہلی صورت کے مقابلہ میں کسی حد تک دُرست تو ہے لیکن اس میں دو طرح کی خرابیاں ہیں : (i) ایک تو یہ کہ آپ کے دل کا نفسانی دبائو سے بچتے ہوئے کسی ایک طرف مائل ہونا جواب دینے کے لیے ضروری ہے ۔ اور ایسا ہر دفعہ اورہرسوال کے جواب میں ہونا ضروری نہیں ہے،ورنہ تین دفعہ اورسات دفعہ استخارہ کی بات کیوں آتی؟جبکہ کوئی بھی معاملہ استخارہ کے بعد ایک ہی لمحہ میں حل ہو جاتا؟ (ii) دُوسری بات یہ ہے کہ یہ حضور ۖ کی تعلیمات اورآپ ۖ سے منقول استخارہ کے طریقہ کے مطابق نہیں ہے۔ اس رواج کے عام ہونے کی وجہ سے ایک خرابی یہ بھی پیدا ہو گئی ہے کہ لوگ بذاتِ خود استخارہ کرنے کے بجائے دوسروں سے استخارہ کروانے کو ہی شرعی طریقہ سمجھنے لگے ہیںجبکہ حضور ۖ کی تعلیمات اورصحابہ کا معمول خود ضرورت مند شخص کے استخارہ کا تھا۔ بہرحال مناسب اورمسنون عمل یہ ہے کہ انسان خود استخارہ کرے، اگر کوئی معاملہ بہت اہم ہو اور کسی پہلو پر میلان بھی نہ ہو رہا ہو یا نفسانی خواہشات کا غلبہ ہو، تو پھر ایسے لوگوں سے جو اس معاملہ سے کسی نہ کسی حد تک متعلق ہوں اوراُن کی بزرگی وشرافت بھی مسلم ہو ،استخارہ کروایا جا سکتا ہے اوران حضرات کو بھی چاہیے کہ استخارہ اس طریقہ پر کریں جس کی آپ ۖ نے اُمت کو تعلیم دی ہے۔(بشکریہ ماہنامہ ندائے شاہی ،انڈیا) ضروری اپیل شیخ الاسلام حضرت مولانا سیّد حسین احمد مدنی قدس سرہ اور حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیب قاسمی قدس سرہ کے خطوط جن حضرات کے پاس ہوں، اُن سے دراخوست ہے کہ اُن کی فوٹو اسٹیٹ روانہ فرمائیں تاکہ اُن کو مرتب کرکے شائع کیا جاسکے ۔ ڈاک کا پتہ : تنویر احمد شریفی جی پی او بکس نمبر1498کراچی74200 پاکستان