ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مئی 2005 |
اكستان |
|
اس سے کم از کم یہ معلوم ہوتا ہے کہ استخارہ عن الغیر (کسی دوسرے کا استخارہ کرنے )کا اسلاف میں کوئی وجود نہ تھا، یا یہ کہ وہ کسی نہ کسی اعتبار سے معاملہ سے متعلق ہوتے تھے، اس صورت میں درحقیقت یہ استخارہ عن الغیر(کسی دوسرے کا استخارہ کرنا)نہیں بلکہ استخارہ عن النفس (خود ضرورت مند کا استخارہ) ہو جائے گا ،لہٰذا بعض حضراتِ علماء نے یہ نقطۂ نظر بھی بیان کیا ہے کہ''استخارہ عن الغیر '' درحقیقت ''استخارہ عن النفس''ہے کیونکہ وہ شخص اس معاملہ کو کسی اعتبار سے ا پنے سے جوڑ کر ہی استخارہ کرتا ہے۔ لہٰذا وہ اسی کی ذات کے لیے استخارہ ہوا، مثلاً والدین جب اپنی اولاد کی شادی کے سلسلہ میں استخارہ کریں گے تو ان کے ذہن میں یہ ہوتا ہے کہ مدِمقابل ہماری اولاد کے لیے مناسب ہوگا کہ نہیں؟ ہمیں اس معاملہ میں کیا رویہ اختیار کرنا چاہیے ، اس کو قبول کرنا ہمارے حق میں بہتر ہوگا یارَد کرنا ، اس معاملہ میں خود اُن کی ذات تردد کا شکار ہے اور استخارہ ترددکے لیے ہے ، دوسرے نقطۂ نظر کے اعتبار سے استخارہ کرنے والا کسی نہ کسی درجہ میں بذاتِ خوداِس معاملہ سے متعلق اوراس میں متردد ہو، ایسا نہ ہوکہ کسی ایسے شخص سے جس کااس معاملہ سے کوئی تعلق ہی نہ ہو، استخارہ کروائے۔ موجودہ حالا ت کے تناظر میںاس سلسلہ میں ایک مسئلہ بہت اہمیت کا حامل ہوگیا ہے ،وہ یہ ہے کہ لوگ فون یا دیگر مواصلاتی ذرائع سے کسی بزرگ یا مذہبی شخصیت سے اپنے کام کے متعلق استخارہ کی درخواست کرتے ہیںاور وہ بزرگ یا صاحب اس مسئلہ اورکام کو سننے کے فوراً بعد ہی اپنا جواب مرحمت فرمادیتے ہیں جیسا کہQTV پاکستان میں یہ طریقہ رائج ہے، اس کی دوکیفیتیں ہو سکتی ہیں : (ا) ایک تو یہ کہ بغیر کسی طلب ِخیر کی دُعا اور توجہ اِلی اللہ فوراً ہی جواب دے دیا جائے، تو اس صورت کو استخارہ نہیں کہا جائیگا کیونکہ استخارہ اللہ سے اپنے حق میں بھلائی اورخیر کے مقدر کرنے کو مانگنے کا نام ہے، اور یہاں اللہ سے مانگنا پایا ہی نہیں گیا، تو اس کو استخارہ کیسے کہا جائے گا ۔بلکہ اگر کوئی شخص اس عمل کے بعد یہ عقیدہ اوراعتقاد رکھے کہ میرے معاملہ میں انتخاب اورفیصلہ اللہ نے کیا ہے تویہ افتراء علی اللہ (اللہ پر بہتان باندھنا )ہونے کی وجہ سے ناجائز اورحرام ہوگا، چنانچہ زمانۂ جاہلیت میں اہل عرب اللہ رب العزت سے خیر اوربھلائی مانگے بغیر اپنے آبائو اجداد کے متعین کردہ خیر وشر کے چند معیارات کی بنیاد پر اس معاملہ کو فیصلہ کرلیتے اور اس کو اللہ کی طرف منسوب کردیتے کہ مجھے میرے رب نے یہ کرنے یانہ کرنے کا حکم دیا ہے ۔ (حجة اللہ البا لغہ ٢/١٩)