ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اپریل 2005 |
اكستان |
|
ان احادیث کے تحت عورت کے لیے بالاتفاق یہ جائز نہیں کہ وہ مردوں سے آگے کھڑی ہو ،کجا یہ کہ وہ مردوں کی امام بنے ،اِس پر اُمت کا اجماع ہے ۔ اس موقع پر نہ صرف عام مسلمانوں بلکہ مسلم حکمرانوں کا یہ شرعی فریضہ ہے کہ اِس قبیح حرکت کے مرتکب مردوزن کے خلاف حسب ِاستطاعت تادیبی کارروائی عمل میںلائیں تاکہ آئندہ کسی بدبخت کو ایسی حرکت کی جرأت نہ ہو سکے۔ بصورتِ دیگر مسلمانوں بالخصوص مسلم حکمرانوں سے قیامت کے روز اِس برائی کو نہ روکنے پر بازپُرس ہو سکتی ہے۔ حدیث شریف میں آتا ہے کہ نبی علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ جب زمین پر کوئی برا کام کیا جائے تو جو شخص وہاں موجود ہوگا اوراُس کو برا جانے گا تو وہ اُس شخص کی مانند ہوگا جووہاں نہیں ہوگا (لہٰذا یہ گناہ میں شریک نہ ہوگا)اور جو شخص وہاں موجود نہیں ہوگا مگر اُس (برائی) پر خوش ہوگا تو وہ اُس شخص کی مانند ہو گاجووہاں موجود ہوگا(اورگناہ میں شریک ہوگا)۔(مشکٰوة شریف ج٢ ص٤٣٦ ) ایک دوسری روایت میں یہ ارشاد فرمایا گیا ہے کہ جو آدمی کسی قوم میں برائی کا اِرتکاب کرے اور وہ قوم اُس کو اس برائی کے ارتکاب سے روکنے کی طاقت رکھنے کے باوجود نہ روکے تو اللہ تعالیٰ اس قوم پر موت سے پہلے ہی اپنا عقاب نازل فرمائیں گے ۔ (مشکٰوة شریف ج٢ ص٤٣٧ ) لہٰذا اُمت پر فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ ہر سطح پر اِس بدعت کی مذمت کرے اوراس کو یک سر مسترد کردے۔ وماعلینا الاالبلاغ المبین ۔