تقریباً تمام اساتذہ وذمہ داران شام کو ہی بستی کے لئے روانہ ہوچکے تھے، یہ قافلہ صبح بستی پہنچا۔ تمام مخلصین اساتذہ وذمہ داران کے مشورہ سے نماز جنازہ کا وقت اگلے دن بعد نماز جمعہ طے ہوچکا تھا، تدفین کے لئے دارالعلوم بستی ہی کے احاطہ میں مسجد کے آگے ایک جگہ متعین کی گئی، اور دارالعلوم کے اربابِ انتظام کے مشورہ سے مبلغ پچاس ہزار روپئے بعوض جائے دفن دارالعلوم میں جمع کردئے گئے؛ تاکہ کسی قسم کا شرعی اشکال باقی نہ رہے۔ ٹیلی فون سے تعزیت کرنے والوں میں ملک وبیرونِ ملک کے اکابر، علماء، قائدین ومفکرین کی تعزیت کا سلسلہ اسی وقت شروع ہوا، جو ہنوز جاری ہے۔ آخری دیدار اور تعزیت کرنے والوں کا تانتا رات ہی سے لگا رہا، جمعہ سے کافی دیر قبل ہجوم بے پناہ ہوجانے کی وجہ سے یہ سلسلہ موقوف کرنا پڑا، دن میں تقریباً پونے بارہ بجے غسل کا عمل شروع ہوا، اس عمل میں راقم الحروف، برادر محترم حضرت مولانا محمد اسعد قاسمی، محترم جناب قاری ابوذر صاحب، محترم جناب مولانا لئیق احمد صاحب، اور دیگر حضرات شریک رہے۔
دارالعلوم الاسلامیہ بستی کا احاطہ اپنی وسعت کے باوجود کثرتِ ازدحام کی وجہ سے تنگی کا شکوہ کررہا تھا، اذانِ جمعہ سے قبل ہی دارالعلوم کی وسیع مسجد اوپر نیچے بھرچکی تھی، دارالعلوم کی تاریخ میں پہلی بار جمعہ میں مسجد کے باہر دور دور تک صفیں بنائی گئیں ، دس ہزار سے زائد مجمع تھا، احقر نے جمعہ سے قبل آدھے گھنٹے حضرت والد صاحب کے تعلق سے ٹوٹے پھوٹے بے ربط الفاظ میں بیان کیا، برادر زادہ مولانا مفتی محمد احمد قاسمی ندوی نے خطبہ جمعہ دیا اور نماز پڑھائی۔
سنتوں کے بعد مسجد کے باہر وسیع احاطہ میں جنازہ لایا گیا، صف بندی کی گئی، احقر نے اس موقع پر ہجوم کی کثرت کی وجہ سے نظم وضبط برقرار رکھنے کی اپیل کی، اور حضرت والد صاحب کے لئے مجمع سے دعائے مغفرت اور ایصالِ ثواب کی درخواست کے ساتھ یہ اعلان کیا کہ حضرت مرحوم کے ذمہ اگر کسی کا کوئی قرض یا حق ہو تو براہِ کرم وہ ورثہ سے بلاتکلف مطالبہ کرلیں ، اس کی فوری ادائیگی کی جائے گی۔