حاصل یہ ہے کہ اپنے اداروں کے لئے حضرت والد صاحبؒ نے توسع قلب ونظر کا جو خط اور نمونہ فراہم کیا، اور پیش کرکے دکھایا، وہ ہم نائبین اور وارثین کے لئے یہ پیغام ہے کہ ہم اسی کو حرز جاں بنائیں ، اور اسی روش پر گامزن رہیں ۔
سخاوت اور مہمان نوازی
حضرت والد صاحبؒ سخاوت، کریم النفسی اور مہمان نوازی کے اوصاف میں اپنے دور کے یگانہ اور منفرد افراد میں سے تھے، عسر ویسر، تنگی اور آسانی کے ہر حالات میں سخاوت وضیافت کا یہی رنگ قائم رہتا تھا، مرادآباد زمانۂ قیام میں جب بھی وطن تشریف لاتے تھے، علاقہ کے تمام علماء، رفقاء کو بطور خاص بار بار مدعو کرتے تھے، بسا اوقات گھر میں دن بھر چولہا جلتا رہتا تھا، مہمانوں کی کثرت کی وجہ سے چولہا بجھنے کی نوبت نہیں آتی تھی، یہی رنگ مرادآباد اور بستی میں تھا، ہر وقت دسترخوان پر واردین وصادرین کا ہجوم ہوتا تھا، ہم سب خوردوں کو اور گھر کی عورتوں کو ضیافت اور اکرام ضیف کی خاص تلقین کرتے تھے۔ حضرت مدنی رحمۃ اللہ علیہ کے دسترخوان کی وسعت کا بار بار بطور تربیت ذکر فرماتے تھے، ان کی زندگی بجا طور پر عرب شاعر کے اس شعر کی تصویر تھی:
وَاِنِّیْ لَعَبْدُ الضَّیْفِ مَا دَامَ نَازِلًا
وَمَا شِیْمَۃٌ لِیْ غَیْرُہَا تُشْبِہُ الْعَبْدَا
تواضع اور خاکساری
حضرت والد صاحب کے امتیازات میں ایک امتیاز ان کی تواضع اور خاکساری کی ادا تھی، حدیث نبوی: من تواضع للّٰہ رفعہ اللّٰہ۔(جو اللہ کے لئے تواضع اختیار کرتا ہے، اللہ اسے بلند کردیتا ہے) کے مطابق اللہ نے ان کی تواضع کی بنا پر ان کو بڑی عظمت، عزت،