جامعہ عربیہ امدادیہ مرادآباد میں قیام
حضرت کی علمی ودینی خدمات کا دورِ شباب
اہل مرادآباد کے اصرار اور حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے حکم پر ۱۹۶۱ء میں حضرت والد صاحب مرحوم ہاپوڑ سے مرادآباد کی قدیم، بافیض دینی درسگاہ جامعہ عربیہ امدادیہ مرادآباد منتقل ہوگئے، درجاتِ عالیہ کی کتب کا درس آپ سے متعلق ہوا، بلا مبالغہ سیکڑوں تشنگانِ علوم نے آپ کے حلقۂ درس میں اپنی پیاس بجھائی، اس دور میں بطور خاص ’’صحیح مسلم‘‘ کا آپ کا درس بے حد مقبول اور معروف ہوا، حتی کہ شہر واطراف کے دیگر مدارس کے طلبہ بھی فرصت نکال کر آپ کے ’’مسلم شریف‘‘ کے درس میں پروانہ وار شرکت کرتے اور استفادہ کرتے تھے، جامعہ عربیہ امدادیہ اس وقت گلہائے رنگا رنگ سے آرستہ انتہائی خوش نما اور پرکشش چمن تھا، علم وعمل کے آفتاب وماہتاب وہاں اکٹھا تھے، وہ مشرق ومغرب کے طلبہ کا مرکز بنا ہوا تھا، حضرت کے اس دور کے معاصر اساتذہ میں شیخ الحدیث حضرت مولانا معین الدین صاحب گونڈویؒ (جو حضرت شیخ الحدیث سہارنپوریؒ کے خلیفہ تھے اور حضرت والد صاحب سے ان کا تعلق انتہائی مثالی رفاقت کا تھا) حضرت مولانا سجاد احمد صاحب مرادآبادیؒ، حضرت مولانا نثار احمد صاحب گونڈویؒ، حضرت مولانا مفتی محمد انعام اللہ صاحب مدظلہم (خلیفہ حضرت محی السنہ ہردوئی، حال صدر مفتی جامعہ عربیہ امدادیہ مرادآباد، اللہ ان کا سایہ عافیت کے ساتھ تادیر ہمارے سروں پر قائم رکھے) وغیرہ تھے۔
جامعہ عربیہ امدادیہ حضرت والد صاحب کی تدریسی، تعلیمی، تربیتی، اصلاحی، تبلیغی،