کے کسی بھی مرحلہ میں ان کا مطمح نظر اور مرکز توجہ نہیں بن سکا، وہ ہمیشہ ’’اَلْیَدُ الْعُلْیَا خَیْرٌ مِنَ الْیَدِ السُّفْلیٰ‘‘ (دینے والا ہاتھ لینے والے ہاتھ سے بہتر ہے) کے مصداق دینے والے رہے، اپنی ذات کے لئے کبھی انہوں نے صراحۃً یا اشارۃً کسی کے سامنے دست سوال دراز نہیں کیا؛ بلکہ کہا جاسکتا ہے کہ اس کا خیال وگمان بھی ان کو نہیں ہوا۔
۱۹۸۰ء سے تاوفات دارالعلوم بستی میں اصل قیام رہا، وہی بانی اور صدر بھی تھے، اور روح رواں اور میر کارواں بھی۔ دارالعلوم سے اپنی ذات کے لئے کوئی رقم اور تنخواہ نہیں لی، سادگی کا یہ عالم تھا کہ ایک سادہ اور موجودہ پرتکلف سامانِ آسائش سے بالکل دور ایک کمرہ میں کولر اور اے سی کے بغیر ایک پنکھے کے نیچے پوری زندگی گذاردی۔ سادہ کمرہ، معمولی رہائش، سادہ بستر، موٹا جھوٹا لباس، سادہ کھانا، ہر قسم کے تعیش، تصنع، تکلف اور بناوٹ سے دور زندگی۔ وہ چاہتے تو حلال طریقہ سے ہر طرح کا سامانِ آسائش اکٹھا کرسکتے تھے، لیکن ان کی طبیعت کی افتاد، مجاہدہ کا مزاج، اکابر کی صحبت کا رنگ یہ سب ان کو اس سے باز رکھتا تھا، انہوں نے اپنی سادہ زندگی اور زاہدانہ کردار سے حدیث نبوی: کُنْ فِیْ الدُّنْیَا کَاَنَّکَ غَرِیْبٌ اَوْ عَابِرُ سَبِیْلٍ (دنیا میں پردیسی یا مسافر کی طرح رہو) پر عمل کرکے دکھایا، اور اپنے خلف کو یہ نمونہ فراہم کیا، اللہ نے اپنے خاص فضل سے ان کے دل کو دنیا کی رونقوں سے گریزاں اور آخرت کی فکر سے آباد کردیا تھا، یہ سعادت من جانب اللہ انہیں عطا ہوئی تھی:
ایں سعادت بزورِ باز نیست
تا نہ بخشد خدائے بخشندہ
حلم وصبر
حلم وصبر دراصل اوصافِ نبوت میں سے ہیں ، صبر کو خدا کی طرف سے انسان کے لئے سب سے بہتر عطیہ قرار دیا گیا ہے، حضرت والد صاحب کی حیات وسیرت میں حلم وصبر کا