بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔
آغاز
اب تک کی اپنی حیاتِ مستعار میں مختلف موضوعات پر لکھنے والے اِس حقیر وعاجز کو کوئی تحریر اتنی مشکل اور ضبط آزما نہیں محسوس ہوئی جتنی دشوار اور صبر آزما آج کی یہ تحریر ہے۔
آہ! جسم وروح کو کیسے کیسے چرکے لگ رہے ہیں ، دل ودماغ درد والم کی کیسی ناقابل بیان کیفیات سے دوچار ہورہے ہیں ، آنکھیں کس طرح اشکوں کے جام لٹارہی ہیں ، اور قلم اس واقعۂ فاجعہ کے اظہار میں کتنی دشواری محسوس کررہا ہے کہ میرے والد ماجد، میرے معلم ومربی، پیکر محبت وشفقت، حضرت اقدس مولانا محمد باقر حسین صاحب (رحمۃ اللہ علیہ) اس دارِ فانی سے رخصت ہوکر اپنے مالک حقیقی سے جاملے، فانا للہ وانا الیہ راجعون۔
۱۶؍جمادی الاولیٰ ۱۴۳۲ھ مطابق ۲۱؍اپریل ۲۰۱۱ء بروز جمعرات بعد نماز مغرب، تقریباً آٹھ بجے شب حضرت نے اس دنیا سے اپنی آنکھیں بند کرلیں ، وہ سالہا سال سے شوگر کے مریض تھے، نسیان اوردماغی امراض نے بری طرح اُن کو اپنے حصار میں لے رکھا تھا، مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی کے مصداق ضعف روز افزوں تھا، بایں ہمہ بہ ظاہر کوئی آخری درجہ کی تشویش کی بات معلوم نہ ہوتی تھی؛ لیکن:
کتنی مشکل زندگی ہے، کس قدر آساں ہے موت
گلشنِ ہستی میں مانندِ نسیم، ارزاں ہے موت
کلبۂ افلاس میں ، دولت کے کاشانے میں موت
دشت و در میں ، شہر میں ، گلشن میں ، ویرانے میں موت
اپنی حیات کے اس سب سے سنگین سانحے پر تأثرات کے اظہار کے لئے ڈھونڈے