زندگی کا آخری دور
علالت اور مرض
پچھلے بارہ سالوں سے حضرت والد صاحب کو شوگر کا موذی مرض لاحق ہوگیا تھا، اس کا علاج بھی ہوا تھا، زیادہ تر پرہیز اور پابندی سے سیروتفریح کے ذریعہ وہ اس مرض پر قابو کئے ہوئے تھے، اور بالعموم شوگر نارمل رہا کرتی تھی۔
۵؍سال قبل سے ان کو نسیان (بھولنے )کا مرض شروع ہوا، یہ مرض بتدریج بڑھتا رہا، علاج بھی ہوا، ایلوپیتھک ، یونانی، آیورویدک، ہومیو پیتھک، ہر طریقہ علاج اپنایا گیا؛ لیکن مرض بڑھتا گیا، بالآخر شعور بالکل ختم سا ہوگیا، ہمہ وقت ذہول رہنے لگا، یہ حضرت والد صاحب کے لئے بڑی آزمائش کے دن تھے، تمام میڈیکل رپورٹس کے مطابق یہ ’’الزائمرڈ منشیا‘‘ (دماغ کی رگ سوکھ جانے) کا خطرناک مرض تھا، جو لاعلاج ہے، اس مرض نے انہیں بالکل معطل کردیا تھا؛ لیکن اس عالم میں بھی قرآن کی سورتوں کی تلاوت، دعائیں ، سلام وجواب کا وہی انداز باقی تھا، ان کی اس دور کی بے ربط گفتگو کے سیاق وسباق سے صرف اور صرف ان کے لگائے ہوئے علم ودین کے باغوں کی آبیاری کی فکر ہویدا ہوتی تھی، مدرسہ کی فکر ان کی صحت اور مرض ہر حال میں ان کے ساتھ چمٹی رہی، اپنے اداروں سے ان کو والہانہ عشق تھا۔
سفر آخرت، وفات، تجہیزوتکفین وتدفین
مرض جوں کا توں تھا؛ لیکن کوئی خطرناک تشویش کی حالت نہیں تھی، ۲۱؍اپریل ۲۰۱۱ء