دارالعلوم الاسلامیہ بستی
حضرتؒ کا اصل سرمایۂ زندگی
ملک کے دردمند اکابر ومشائخ اترپردیش کے مشرقی خطے میں ایک مرکزی دینی درسگاہ کی کمی شدت سے محسوس کررہے تھے، اترپردیش کے مشرقی اضلاع (بالخصوص بستی، گورکھپور، فیض آپاد، دیوریا وغیرہ) میں کوئی معیاری مرکزی دینی ادارہ نہ ہونے کا احساس سبھی اہل فکر کررہے تھے، ضلع بستی (جو اس وقت تقسیم نہ ہوا تھا، اور موجودہ ’’سنت کبیر نگر‘‘ اور ’’سدھارتھ نگر‘‘ اسی کا حصہ تھا) آبادی کے اعتبار سے یوپی کا سب سے بڑا ضلع تھا، اس کی کل آبادی تیس لاکھ اور مسلم آبادی تقریبا دس لاکھ تھی، اس لئے شہر بستی میں ایک مرکزی دینی ادارے کا قیام بے حد ضروری سمجھا جارہا تھا۔
بطور خاص عارف باللہ حضرت مولانا قاری سید صدیق احمد صاحبؒ کی طرف سے حضرت والد صاحبؒ کو بار بار اصرار کے ساتھ بستی کی طرف توجہ فرمائی کا حکم ہوتا تھا، بالآخر ۱۹۸۰ء میں حضرت والد صاحبؒ نے حضرت باندویؒ کے حکم وتحریک پر ملک کے تمام اکابر کی سرپرستی اور تائید سے اپنے مخلص احباب ورفقاء کے ساتھ توکلاً علی اللہ بے سروسامانی کے باوجود ’’دارالعلوم الاسلامیہ بستی‘‘ کا قیام فرمایا۔
۴؍شوال ۱۴۱۲ھ کے اپنے تأثرات میں حضرت باندویؒ نے تحریر فرمایا ہے:
’’احقر دارالعلوم الاسلامیہ بستی میں اکثر حاضر ہوتا رہتا ہے، اس کی خواہش تھی کہ ہمارے پورب میں ایسا ادارہ ہو جس میں اپنے اسلاف کے اصول کے مطابق تعلیم وتربیت کا معقول انتظام ہو، اور شروع سے لے کر آخر تک کی درسیات اس میں پڑھائی جائیں ، اس کا