رفعت اور بلندی عطا فرمادی تھی، عوام خواص، ہر طبقہ میں ان کا یکساں احترام اور اکرام تھا، انہوں نے کبھی اپنے کو نمایاں کرنے کی کوشش نہیں کی، ہمیشہ اپنے آپ کو پیچھے رکھتے تھے، ان کے دل ودماغ میں کبھی نخوت، تکبر اور ترفع کے جذبات پیدا نہیں ہوئے، اللہ نے ان کو مؤثر خطیبانہ صلاحیت عطا فرمائی تھی، عنفوان شباب میں بڑے بڑے اجلاسات اور اجتماعات سے ولولہ انگیز خطاب بھی کرچکے تھے، لیکن تواضع، کسر نفسی اور خاکساری، اور اپنے کو پیچھے رکھنے کا مزاج ان کی سرشت میں تھا، اس لئے یہ سلسلۂ خطاب اس تسلسل کے ساتھ بعد میں باقی نہیں رہا، البتہ اپنے خودوں کو اور بطور خاص اس حقیر راقم کو بڑے اصرار کے ساتھ سلسلۂ خطابات جاری رکھنے کی تلقین کرتے تھے، جس کی تفصیل الگ موضوع ہے۔
رسوخ علمی
زمانۂ طالب علمی کی انتھک محنتوں اور کوششوں ، اساتذہ کی توجہات اور مشفق والدہ کی دعاؤں کے نتیجہ میں اللہ نے حضرت والد صاحب کو بے انتہاء علمی رسوخ اور گہرائی سے نوازا تھا، ان کے تلامذہ جو بلامبالغہ سیکڑوں کی تعداد میں ہیں ، متفقہ طور پر ان کے علمی اور اعلیٰ تدریسی ذوق واستعداد کا ذکر کرتے ہیں ۔
علوم نقلیہ کے ساتھ ساتھ علوم عقلیہ میں بطور خاص درک تھا، نحو وصرف، قواعد وتراکیب میں بے انتہاء مہارت اور یدطولیٰ حاصل تھا، احقر کو یاد ہے کہ جب میں عربی اول میں نحومیر اور شرح مائۃ عامل پڑھا کرتا تھا، عربی کی کوئی آسان کتاب لے کر بعد عشاء مجھے لے کر بیٹھ جاتے تھے، پورا اجرا کراتے تھے، اور کسی بھی قسم کی کوتاہی اور غفلت گوارا نہیں کرتے تھے۔
قواعد نحویہ وصرفیہ کے اجراء کے لئے حضرت مولانا عبدالصمد رحمانی مرحوم کی کتاب ’’تیسیر القرآن‘‘ کو بے حد مفید سمجھتے تھے، اسے دارالعلوم بستی کے نصاب میں داخل کیا، اور باضابطہ اسے شائع کیا۔