طلبہ میں عربی زبان وبیان کی استعداد پختہ کرنے کے لئے ندوۃ العلماء کے تیار کردہ سلسلہ ’’قصص النبیین والقراء ۃ الراشدہ ومختارات ومعلم الانشاء و تمرین الصرف والنحو‘‘ کو بے حد نافع سمجھ کر ماہر فن اساتذہ کے مشورہ سے داخل نصاب کیا، فارسی سے لے کر دورۂ حدیث میں صحیح مسلم تک بیشتر کتابیں ان کے زیر درس رہیں ۔
راقم نے درجہ ہفتم عربی میں تقریباً ڈیڑھ ماہ تک حضرت والد صاحب سے اپنے رفقاء سمیت ’’مشکوٰۃ جلد ثانی‘‘ کتاب النکاح کے دسیوں ابواب اور ہدایہ جلد رابع میں چند ابواب اور بیضاوی شریف کے کئی صفحات پڑھنے کی سعادت حاصل کی، ان کا انداز درس بے حد انوکھا ہوتا تھا، وہ طلبہ کو اسباق میں مکمل حصار میں لے کر بیدار مغز اور متوجہ رکھتے تھے، صحت عبارت پر بے حد زور تھا، کیا مجال کہ کوئی طالب علم غلط عبارت پڑھ کر نکل جائے؟ فوراً ٹوکتے تھے، اصلاح کرائے بغیر آگے نہیں بڑھنے دیتے تھے، اسی لئے ان کے سامنے عبارت خوانی طلبہ کے لئے بہت مشکل کام ہوتا تھا۔ ذہین طالب علم بھی بڑی تیاری کے بعد ہی ان کے سامنے عبارت پڑھنے کی ہمت کرپاتا تھا۔
جامعہ عربیہ امدادیہ مرادآباد میں مستقل قیام کے دور میں ان کا صحیح مسلم کا درس بے حد قبول عام حاصل کرچکا تھا، متعدد اساتذہ بھی اپنے اسباق کی تیاری کے لئے ان سے رجوع ہوتے تھے۔
آیات واحادیث کے سلسلہ میں ان کا ذہن بہت مستحضر رہا کرتا تھا، اکابر اساتذہ بالخصوص حضرت مدنیؒ کے دروسِ حدیث کے علمی نکات ومعارف انہیں مکمل محفوظ تھے۔
خرد نوازی
حضرت والد صاحب خردوں کی تشجیع اور حوصلہ افزائی میں بہت آگے تھے، خرد نوازی ان کی حیات وسیرت کا روشن باب رہا ہے، نہ جانے کتنے گم نام افراد ان کی تشجیع وتحریک سے