تکلیف جھیل کر تحصیل علم میں اپنی پوری طاقت کھپادی، اپنی متواضعانہ اداؤں اور جوہر قابل کی وجہ سے اکابر اساتذہ کے منظور نظر بن گئے، دارالعلوم کے زمانۂ قیام میں حضرت شیخ الاسلام مولانا سید حسین احمد مدنی نور اللہ مرقدہٗ، حضرت علامہ ابراہیم صاحب بلیاویؒ، شیخ الادب حضرت مولانا اعزاز علی صاحبؒ، حضرت مولانا فخر الحسن صاحبؒ، حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیب صاحبؒ اور حضرت مولانا معراج الحق صاحبؒ وغیرہم سے بطور خاص کسب فیض کیا۔ ۱۹۵۶ء میں دورۂ حدیث شریف سے فراغت ہوئی، اور از اول تا آخر مکمل بخاری شریف حضرت شیخ الاسلامؒ سے پڑھنے کی سعادت حاصل کی، اور امتیازی نمبرات سے کامیاب ہوئے۔
ابتدائی تدریس
دارالعلوم دیوبند سے فراغت کے بعد ہی فوراً اپنے اساتذہ کے حکم سے دیوبند سے قریب موضع باغوں والی ضلع مظفرنگر کے ممتاز ومعروف تعلیمی ادارہ مدرسہ خادم العلوم میں ایک سال تک تدریسی خدمات انجام دیں ، اور اپنی حسن کارکردگی اور نیک طبعی کی بنا پر وہاں مقبول رہے، اسی دوران حضرت مدنیؒ کا انتقال ہوا، وہ خود بتاتے تھے کہ باغوں والی سے پیدل مظفرنگر گئے، وہاں سے بذریعہ ٹرین حضرت مدنیؒ کے جنازے میں شرکت کے لئے دیوبند پہنچے۔باغوں والی کے اس دور میں مشہور معاصرین میں حضرت مولانا جمیل احمد صاحبؒ سہارن پوری، حضرت مولانا محمد حنیف صاحب مدظلہم حال مہتمم مدرسہ خادم العلوم باغوں والی وغیرہ تھے۔
باغوں والی کے زمانۂ قیام میں حضرت والد صاحب کی طبیعت باربار خراب ہوتی رہی، اس لئے مجبوراً وہاں سے رخت سفر باندھا اور اساتذہ کے حکم پر ہاپوڑ منتقل ہوئے اور تین سال سے زائد عرصہ تک مدرسہ خادم الاسلام ہاپوڑ میں تدریسی خدمات انجام دیں ، اور اوپر سے نیچے تک تقریباً تمام کتابیں پڑھائیں ، آپ کی تدریسی قابلیت کا دور دور تک شہرہ ہوا۔