آیات سنتے اور ان کی تشریح کرتے تھے، یہ ان کی تربیت کا ایک انداز ہوتا تھا، اوراد واذکار کا بھی بطور خاص اہتمام فرماتے تھے، صبح فجر سے پہلے کی تفریح ورنہ فجر کے بعد طویل تفریح کا معمول تھا، کئی کئی کلومیٹر تیزی سے پیدل چلتے تھے، بالعموم سات آٹھ منٹ میں ایک کلومیٹر کی دوری طے کرلیتے تھے، اس تفریح میں کسی سے بات کرنا پسند نہیں کرتے تھے، تفریح میں اپنا ذکر کا پورا معمول مکمل فرمایا کرتے تھے، سال میں کئی بار سعودیہ عربیہ کا سفر ہوتا تھا، ہر سفر میں بڑے ذوق وشوق سے حرمین شریفین میں حاضر ہوتے تھے، اپنی زندگی میں بیس سے زائد حج کئے، اور عمرے تو بے شمار ہیں ۔
زبان کی خاص حفاظت
حضرت والد صاحب کا یہ خاص رنگ تھا کہ کسی کی غیبت نہ کرتے تھے، نہ سن پاتے تھے، بیجا تبصروں سے ہمیشہ اپنے کو دور رکھا، ان کی زبان سے کبھی کسی کی برائی اور غیبت نہیں سنی گئی، زبان کی حفاظت کا جو اہتمام ان کے ہاں تھا، دو ردور تک اس کی مثال نہیں ملتی، کسی کی دل آزاری نہ ہونے پائے، اس کی فکر ہمہ وقت رکھتے تھے۔
وسعتِ قلبی
اللہ نے اُن کو قلبی اور فکری وسعت کی اس دولت سے مالا مال کیا تھا، جو فی زمانہ جوہر نایاب ہے، مشرب ومسلک، فکر ونظر، منہاج وطریق کے تمام تر اختلافات وفروق کو نظر انداز کرتے ہوئے تمام مکاتب فکر کے علماء، مشائخ، اعیان وقائدین کا حسب مرتبت شایانِ شان استقبال، خیر مقدم اور لحاظ کیا کرتے تھے۔
جامعہ امدادیہ اور دارالعلوم الاسلامیہ بستی دونوں اداروں کا یہی متوسعانہ مزاج انہوں نے تشکیل دیا، اکابر دیوبند کے طریق پر استقامت اور تصلب کے ساتھ ہر قسم کی مداہنت سے بچتے ہوئے قلب ونظر کے توسع کا جو اظہار انہوں نے اپنے سلوک اور رویے سے فرمایا، وہ