جوہر ہر دوسرے وصف کی بہ نسبت کہیں زیادہ نمایاں تھا، بردباری اور صبر وتحمل کی خصوصیات انہیں مبدأ فیاض سے بہت وافر مقدار میں حاصل ہوئی تھیں ، ان کی ہمہ دم رواں دواں زندگی اور اجتماعی سرگرمیوں میں ہر موڑ پر صبر آزما اور ضبط طلب مراحل آیا کرتے تھے، ایسے موقعے بھی آئے کہ انسان بے قابو ہوجائے، طیش میں آجائے، اور جوابی اقدام کربیٹھے؛ لیکن ہر گام پر والد صاحب نے صبر کی باگ تھامے رکھی، اور ہر موقع پر حلم وتحمل کا مثالی مظاہرہ فرمایا۔
اداروں کے لئے مالی فراہمی کا محاذ بہت ہی دشوار گذار گھاٹی عبور کرنے کے مرادف ہوتا ہے، اس میدان میں ہر قدم پر دل دکھانے اور طیش دلانے والی باتیں اور شکلیں سامنے آتی ہیں ۔ حضرت والد صاحب نے حلم، ضبط، صبر اور تحمل کی کس ادائے دل نواز سے یہ مرحلے سرکئے اور یہ وادی طے کی، آج اس کا تصور بھی مشکل ہے۔
غیروں کے ستم کے ساتھ اپنوں کی ریشہ دوانیوں ہفوات اور تبصرہ بازیوں کے جواب میں ہمیشہ ان کا ردعمل مثبت رہا، اللہ نے ان کے دل کو منفی اور تخریبی نفسیات سے بالکل پاک کررکھا تھا، ان کی پوری زندگی اس پر شاہد ہے۔ سخت سے سخت حالات اور ناگوار سے ناگوار صورتِ حال میں بھی ان کی شانِ حلیمی میں سرمو بھی فرق نہیں آتا تھا، یہ اللہ کی طرف سے خاص انعام تھا جو ان کو عطا ہوا تھا۔
نہی عن المنکر
اپنی تمام تر حلیمانہ صفات کے باوجود حضرت والد صاحبؒ منکرات پر خاموشی اختیار کئے رہنے کی استطاعت نہیں رکھتے تھے، منکر کو برداشت کرجانا ان کے بس میں نہیں تھا، ہمارے وطن موضع ’’مدار پور‘‘ میں کچھ شرپسند گمراہ مسلمان محرم کے مہینہ میں تعزیہ بنایا کرتے تھے، والد صاحب کو یہ منکر برداشت نہیں تھا، آپ نے مشورہ کیا اور اس منکر کا خاتمہ طے کرلیا، تعزیہ بنانے والوں کو بلایا گیا، ان کو اس گناہ سے روکا گیا، تعزیہ سازی پر جو مصارف آئے