خود میرے علم میں متعدد ایسے واقعات ہیں کہ بہت سے پریشان حالوں کی مالی مدد کی، قرض کے طالبین کو قرض دیا اور کبھی پلٹ کر واپس نہیں مانگا، قدرتی حادثات وآفات کے موقع پر بے چین ہوجاتے تھے، اور مصیبت زدگان کی دل کھول کر مدد کئے بغیر انہیں چین نہیں آتا تھا۔ بہت سے مقدمات، تنازعات کا حل اور تصفیہ ان کے ذریعہ ہوا، نہ جانے کتنے دلوں کی کدورتیں اور خلیجیں ان کے توسط سے ختم ہوئیں ۔ خدمت خلق اور صلہ رحمی کے باب میں ان کی خدمات کا دائرہ بے حد وسیع ہے، جو یہاں سمیٹا نہیں جاسکتا۔
امانت، دیانت اور غایت احتیاط
ان کی زندگی کا ایک روشن پہلو ان کی امانت، دیانت اور مالی معاملات میں غایت درجہ احتیاط اور پھونک پھونک کر قدم اٹھانے کی خاص عادت تھی، ان کی پوری زندگی مدارس کے سایہ میں گذری۔ ۱۹۶۹ء سے لے کر تا وفات ۴۰؍سال سے زائد کا عرصہ اہتمام وانصرام میں گذرا، ہمہ وقت مالی معاملات سے سابقہ رہا؛ لیکن پائی پائی اور رتی رتی کا حساب ان کے پاس رہتا تھا، امانت ودیانت کے اصول ہرہر جز وکل میں ملحوظ رکھتے تھے۔ احتیاط کا یہ عالم تھا کہ پیدل چلنا گوارا کرتے تھے، پبلک بسوں میں سفر کرلیا کرتے تھے، لیکن مدرسہ پر زیادہ بار ڈالنا گوارا نہیں ہوتا تھا، پچاسوں بار ہم خوردوں نے یہ منظر دیکھا ہے۔
زہد وقناعت اور سادگی
ان کی زندگی اس حدیث کا مکمل عکس تھی:
قَدْ اَفْلَحَ مَنْ اَسْلَمَ، وَرُزِقَ کَفَافًا، وَقَنَّعَہُ اللّٰہُ بِمَا اَعْطَاہُ۔
ترجمہ: جو اسلام لایا، اسے بقدر کفاف رزق عطا ہوا، اور اللہ نے اپنے عطا کردہ رزق پر اسے قانع بنادیا، وہی اصل میں کامیاب ہے۔
اللہ نے ان کو دل کا غنی، قناعت اور زہد کا بلند مقام بخش دیا تھا، حصول دولت زندگی