بروز جمعرات دن میں دس بجے احقر نے مرادآباد سے ٹیلی فون پر والدہ سے گفتگو کی، انہوں نے اطمینان کی خبر سنائی، والد صاحب سے بھی بات ہوئی، سلام وجواب کا وہی انداز تھا، احقر کو اسی دن لہر پور ضلع سیتاپور کے ایک عظیم اجلاس میں شرکت کے لئے آنا تھا، مغرب کے بعد لہرپور پہنچا، پونے آٹھ بجے ٹیلی فون آیا کہ والد صاحب کی حالت بے حد تشویش ناک ہے، چند منٹوں کے بعد وفات کی اطلاع آئی۔
گھر میں شام کا کھانا تناول فرمارہے تھے، چار لقمے کھاچکے تھے، والدہ محترمہ کھلارہی تھیں ، پانچواں لقمہ منہ میں ڈالا تو زور سے ہچکی آئی، لقمہ حلق میں پھنس گیا، لقمہ نکالا گیا تو کیفیت دگر گوں تھی، ڈاکٹروں کے مطابق سیریس ہارٹ اٹیک (خطرناک قلبی دورہ) ہواتھا، زمزم پلایا جاتا رہا، برادر محترم حضرت مولانا محمد اسعد قاسمی صاحب زیدمجدہم نے ۱۵؍چمچے زمزم کے پلائے، ڈاکٹر حضرات انجکشن لگانے کی تیاری ہی کررہے تھے؛ لیکن وقت موعود آچکا تھا، اللہ کے دین کا یہ خادم منزلِ آخرت پر پہنچنے کے مرحلہ میں آچکا تھا، اچانک نبض تھم گئی، سانسوں کا سلسلہ منقطع ہوگیا، ناسوتی زندگی سے رشتہ ختم ہوگیا، اور :
ع: عمر بھر کی بے قراری کو قرار آہی گیا
فَاِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔
یہ واقعہ ۱۶؍جمادی الاولیٰ ۱۴۳۲ھ مطابق ۲۱؍اپریل ۲۰۱۱ء شب جمعہ بوقت آٹھ بجے پیش آیا۔
حادثے کی یہ خبر جنگل کی آگ کی طرح پورے ملک میں پھیل گئی، جامعہ امدادیہ مرادآباد اور دارالعلوم بستی میں سناٹے کا عالم تھا، ہر دل غمگین تھا، ہر آنکھ اشک بار تھی، شہر واطراف سے آنے والوں کا ہجوم تھا، سب کی حالت غیر تھی۔
احقر فوراً لہرپور سے بذریعہ کار روانہ ہوچکا تھا، برادرِ محترم جناب ڈاکٹر محمد ارشد صاحب لکھنؤ سے روانہ ہوچکے تھے، ہم رات دو بجے کے قریب بستی پہنچے، جامعہ امدادیہ کے