انقلابی تحریک کے فعال رکن رہے، وہ اس تحریک کو وقت کا اولین تقاضا سمجھتے تھے، اور اپنی مذہبی ذمہ داری سمجھ کر اس میں سرگرم طور پر شریک تھے، اس تحریک کے بانی قاضی محمد عدیل عباسی مرحوم سے خاص تعلق رکھتے تھے، ان کی خدمات کی تہہ دل سے قدر کرتے تھے، تحریک کے سابق صدر حضرت مفکر اسلامؒ، موجودہ صدر حضرت مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی مدظلہم، سابق جنرل سکریٹری ڈاکٹر محمد اشتیاق حسین قریشی مرحوم، موجودہ جنرل سکریٹری محترم جناب ڈاکٹر مسعود الحسن عثمانی زیدمجدہم سے بہت مضبوط اور گہرا تعلق تھا، کونسل کی تقریباً تمام کانفرنسوں اور اجلاسات میں اہتمام کے ساتھ شرکت فرماتے تھے، دینی تعلیمی کونس کی ایک عظیم علاقائی کانفرنس حضرت والد صاحب نے دارالعلوم کے احاطے میں منعقد کی، جس میں حاضرین کا جم غفیر شریک تھا، حضرت مفکر اسلام کی صدارت میں یہ کانفرنس انتہائی تاریخ ساز ثابت ہوئی۔
جمعیۃ علماء ہند
حضرت والد صاحبؒ کے دل میں حضرت مدنی سے شاگردی کا شرف حاصل ہونے کے نتیجے میں جمعیۃ علماء سے عشق ومحبت کا تعلق تھا، وہ جمعیۃ کو معاصر حالات میں سرمایۂ ملت کا نگہبان سمجھتے تھے۔ ضلعی، صوبائی اور ملکی ہر سطح پر جمعیۃ کے پروگراموں میں حسب موقع شرکت کرتے تھے۔ فدائے ملت حضرت مولانا سید اسعد صاحب مدنیؒ سے بھی تعلق خاطر تھا، حضرت فدائے ملتؒ بار بار جامعہ امدادیہ اور دارالعلوم بستی تشریف لایا کرتے تھے، حضرت مولانا سید ارشد صاحب مدنی مدظلہم سے قریبی رفاقت کا مثالی تعلق تھا، حضرت والد صاحب کی وفات کے بعد اِس حقیر راقم کے پاس سب سے پہلے (غالباً ساڑھے آٹھ بجے شام) حضرت مولانا مدظلہم کا تعزیتی فون آیا، جب بھی ملاقات ہوتی، حضرت والد صاحب کی خیریت بڑے اہتمام سے معلوم کرتے تھے، اور جب بھی اس خطے کا سفر ہوتا، عیادت وملاقات کے لئے ضرور وقت فارغ فرماتے تھے۔ ۱۹۷۰ء سے ۱۹۸۰ء کی دہائی میں ان