صحت ہو یا مرض، ہر جگہ، ہر وقت، ہر موقعے پر جو فکر اُن کی رفیق وہم دم تھی وہ مدرسہ کی فکر تھی، مدرسہ کے استحکام اور ترقی کا خیال ان کے دل ودماغ اور اعصاب وحواس پر مکمل طور پر مسلط رہا کرتا تھا۔
انہوں نے اپنا سب کچھ (اپنی طاقت، توانائی، جذبات، اوقات، آرزوئیں ، ضروریات) انہیں دینی اداروں کے لئے وقف ونثار کردیا تھا، اور اس احساس کے ساتھ کہ:
حاصل عمر نثارِ رہِ یارے کردم
شادم از زندگیٔ خویش کہ کارے کردم
انہیں دنیوی اور معاشی ترقیوں کے باربار مواقع ملے تھے، درس وتدریس کے ساتھ پرائیویٹ طریقے سے انہوں نے ہائی اسکول اور انٹرمیڈیٹ کے امتحانات اعلیٰ نمبروں سے پاس کئے تھے، اُن کے قدیم رفیق محترم جناب پرنسپل مقبول احمد صاحب مرحوم نے ’’خیرانٹر کالج‘‘ بستی میں ۱۹۷۲ء میں بحیثیت ٹیچر ان کا تقرر بھی کیا تھا؛ لیکن انہوں نے اپنے کو خدمت دین، خدمت علم، خدمت مدارس کے لئے یکسو کرلیا تھا، دنیا اور حطامِ دنیا سے وہ صرف دور نہیں ؛ بلکہ گریزاں اور نفور تھے، خدمت دین وعلم ان کا روشن شعار تھا، اس راہ میں ان کی بلند حوصلگی، ریاضت ومجاہدے کی عادت اور بے لوثی قابل صد رشک تھی، حالات کے تمام مخالف جھکڑ بھی کبھی ان کی بلند پروازی کے آڑے نہ آپاتے تھے، ان کے حوصلے کا طائر بلند پرواز کبھی کسی ایک آشیانے پر قانع نہیں ہوتا تھا، ان کی زندگی ہر دم رواں ، ہر لمحہ جواں تھی، اُن کی زبان حال گویا یہ کہتی تھی ؎
میں کہاں رکتا ہوں عرش و فرش کی آواز سے
مجھ کو جانا ہے بہت اونچا حدِ پرواز سے
دارالعلوم الاسلامیہ حضرت والد صاحب کے خوابوں کی حسین تعبیر ہے، ان کی زندگی کی بے پناہ کاوشوں اور محنت کا سرمایہ ہے، ان کے عمر بھر کے تمام دنوں کی تپش اور راتوں کے