حضرت مفکر اسلامؒ، حضرت فدائے ملتؒ وغیرہم) کی بار بار تشریف آوری سے طلبہ واساتذہ کو استفادہ کے زریں مواقع ملتے رہے۔
حضرت والد صاحب کے منصوبوں میں ایک اہم منصوبہ میڈیکل کالج کا قیام تھا، شہر بستی کے کنارے جانب جنوب میں خریدی گئی زمین میں مستحکم طور پر میڈیکل کالج بنانے کا خیال تھا، اس کے لئے علی گڈھ سے حکیم ظل الرحمن صاحب، مولانا حکیم محمد ایوب قاسمی صاحب اور بینا پاڑہ سے حکیم ارشاد صاحب وغیرہم کو حضرت والد صاحب نے بستی آنے کی دعوت دی، یہ حضرات آئے، کئی دن قیام کیا، پورا خاکہ بنایا گیا، مشورے ہوئے، اسی طرح ایک منصوبہ ٹیکنیکل اسکول کا قیام بھی تھا۔
حضرت والد صاحبؒ خدمت خلق کے لئے ایک ہاسپٹل کے قیام کا بھی ارادہ رکھتے تھے، اللہ کرے کہ یہ منصوبے جلد عملی شکل میں ظاہر ہوں ، اور حضرت کا مشن رواں دواں رہے، اسی طرح شہر مرادآباد میں رام پور روڈ پر لڑکیوں کے ایک اعلیٰ دینی معیاری تعلیمی ادارے کے قیام کے لئے بھی کوشاں تھے، اللہ اس منصوبہ کو جلد مکمل کرادے۔
ایک بڑی فکر حضرت والد صاحب کو مسلم بچوں اور بچیوں کے لئے ایسے انگلش میڈیم اسکول کے قیام کی تھی، جہاں بچوں کے دینی عقائد کا تحفظ ہوسکے، ان کے اسی خواب میں رنگ بھرنے کی کوشش کے طور پر بستی میں ’’اقرأ ایجوکیشنل اینڈ ویلفیئر اکیڈمی‘‘ کے زیراہتمام ’’اقرأ پبلک اسکول‘‘ حضرت والد صاحب کی علالت کے دور میں ان کی سرپرستی میں قائم کیا گیا، اللہ اس کو حضرت کے خوابوں کی تعبیر اور اسے بامقصد بنائے، آمین۔
حضرت والد صاحبؒ کی زندگی کا بہت بڑا حصہ جامعہ عربیہ امدادیہ اور دارالعلوم الاسلامیہ کی ترقی کے لئے اندرون وبیرونِ ملک کے اسفار میں گذرا، بطور خاص سعودیہ عربیہ، قطر، کویت، بحرین، امارات، برطانیہ، ساؤتھ افریقہ وغیرہ کے اسفار ہوئے، سفر ہو یا حضر، دن ہو یا رات، خلوت ہو یا جلوت، اہل خانہ میں ہوں یا واردین وصادرین میں ،