سوز کا حاصل ہے، ان کی قربانیوں ، جفا کوشیوں ، جگر کاویوں اور عزیمتوں کی اصل جلوہ گاہ ہے، ان کی پوری عمر کی بے قراریوں ، بے تابیوں اور مجاہدوں کا مظہر ہے، یہی وہ علمی قلعہ ہے جس کے وہ بانی بھی تھے، مؤسس بھی، صدر بھی، روح رواں بھی، علم کے اس چمستان اور دین کے اس گلستاں کے وہی نگہبان بھی تھے اور مالی بھی۔ ۱۹۸۰ء میں لگایا ہوا یہ پودا آج تناور درخت اور ہرے بھرے باغ کی جس شکل میں نظر آرہا ہے، از اول تا آخر سب انہیں کی محنتوں کا صدقہ اور انہیں کی کوششوں کا فیض ہے، اللہ اسے ہمیشہ آباد وشاداب رکھے اور حضرت مرحوم پر اپنی رحمتوں کا مینہ برسادے، آمین۔
rvr