کر جو مسرت ہوئی، اس کے اظہار کے لئے میرے پاس الفاظ نہیں ہیں ‘‘۔
۲۳؍ذی الحجہ ۱۴۱۳ھ
مطابق ۱۵؍جون ۱۹۹۳ء
حضرت والد صاحب علیہ الرحمہ نے ایک طرف مستحکم تعلیمی نظام کے لئے ماہر فن، محنتی، لائق اور فعال اساتذہ کی ایک ٹیم دارالعلوم بستی میں جمع کی، جن کی محنتوں اور کاوشوں سے دارالعلوم کا تعلیمی معیار بے حد بلند اور تعلیمی ریکارڈ انتہائی اعلیٰ اور مثالی بن کر سامنے آیا، درجاتِ عربی، درجاتِ حفظ وناظرہ، درجاتِ تجوید وقراء ت اور درجاتِ پرائمری، سب کے لئے حضرت والد صاحب کی نگاہِ دور رس خوب سے خوب تر کی جستجو کرتی رہی، وہ جوہر قابل تلاش کرتے رہے، اور اپنے دارالعلوم کا دامن علم وفن کے آبدار گوہروں سے مالا مال کرتے رہے۔
تعلیم کے علاوہ تربیتی نظام کو بہتر کرنے کی سمت میں حضرت والد صاحبؒ نے بطور خاص توجہ فرمائی، اس تعلق سے حضرت مولانا مفتی افضل حسین صاحبؒ (سابق مفتی واستاذ حدیث وتفسیر دارالعلوم بستی) نے اپنی پوری طاقت کھپادی، تلاوت ودعا وذکر کا اہتمام، پند ونصائح کا التزام، سلام کی ترویج، ادب وسلیقہ کی طرف توجہ دہانی، طلبہ کی تربیت کے لئے اذان، اقامت، امامت، خطابت کی مشق، غیر حفاظ کو قرآن کے آخری دو پارے حفظ کرانے کی تاکید اور تشجیع، سب اسی سلسلہ کی کڑیاں ہیں ۔
حضرت والد صاحبؒ کی ذاتی دلچسپی اور خاص ذوق وشوق کی وجہ سے دارالعلوم میں دینی وعصری ہر دو علوم کے ماہرین کا ورود باربار ہوتا رہا، مختلف موضوعات پر توسیعی محاضرات کا سلسلہ بھی رہا، اسلامک فقہ اکیڈمی کا تربیتی کیمپ بھی لگایا گیا، جس میں دینی وعصری علوم کے ماہرین نے اپنے خطبات، مقالات اور محاضرات کے ذریعہ شرکاء کو فیض پہنچایا۔
اسلامک فقہ اکیڈمی کا سیمینار بھی منعقد ہوا، جس میں ملک وبیرون کی مؤقر، معتبر، ممتاز علمی وفقہی شخصیات کا عظیم مجمع شریک رہا، اکابر ومشائخ (بطور خاص حضرت باندویؒ،